60

آہ!!!!کرن وقار!!!!

آہ!!!!کرن وقار!!!!

کومل شہزادی
موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ یہ وہ قانون الٰہی ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ہر امت کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب ان کا وقت آجاتا ہے تو نہ ایک ساعت آگے جاتا ہے اور نہ ایک گھڑی پیچھے۔ پچھلے دنوں ایک عمدہ شاعرہ اور کالم نگار کی اچانک جوانی کی موت نے یہ یاد دہانی کروائی کہ ہر ایک کو موت کا ذائقہ چھکنا ہے۔وہ چاہے جوان ہو یا بوڑھا موت کا وقت مقررہے۔اپنے جذبوں کو خوبصورت لفظوں کے زریعے شاعری کی لڑی میں پرونے والی معروف کرن وقار اب ہم میں نہیں رہیں۔
علم و ادب اور شاعری میں کردار ادا کرنے والی محترمہ کرن وقار صاحبہ خالق حقیقی سے جاملیں، اس سے پہلے ان کی والدہ پھر ان کے بھائی اور اب خود کرن وقار کورونا جیسے موذی وائرس کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں ۔
دنیاٸے ادب کی شہزادی، اردو و پنجابی کی معروف شاعرہ، کالم نگار، محبتوں کی پیکر، جواں سال ، خوبرو وخوش خصال ، ہنستی مسکراتی، اجالے بکھیرتی کرن وقار انجانی راہوں پر رختٍ سفر باندھ کے اپنی دوسالہ بیٹی آٸمہ کو جو اس کے وجود سے الگ ہی نہیں ہوتی تھی۔

کرن وقار کالم نگاری میں بھی ایک اہم نام رکھتیں تھیں۔ان کے زیادہ تر کالم نوائے وقت میں شائع ہوتے تھے۔کالم کے زیادہ تر موضوعات اصلاحی،سماجی،ادبی اور معلوماتی نوعیت کے حامل تھے۔اسلوب کے ساتھ الفاظ کا خوبصورت چناو نے ان کے کالموں کو مزید تقویت بخشی۔الفاظ کے اظہار کے لیے عمدہ زبان کا استعمال کرتیں جو قاری کے لیے خوش آئیند بات تھی۔
شاعری میں اپنا ایک مقام رکھتی تھیں۔بہت سے مشاعروں میں اپنا کلام پیش کرچکی تھیں۔اپنے جذبوں کو خوبصورت لفظوں کے زریعے شاعری کی لڑی میں پرونے والی معروف شاعرہ کرن وقار اب نا تو اپنی شاعری سے مستفید کرسکیں گی۔ادب کا ایک روشن ستارہ بھی وبا کی نذر ہوگیا۔ان کی شاعری میں زیادہ تر موضوعات سوچ وبچار، ہجر ووصال وغیرہ جیسے شامل ہیں۔جزبے کو الفاظ کی لڑی میں خوبصورت انداز میں پرونے کا فن رکھتیں تھیں۔

یہ لوگ کیوں میری آنکھوں کو دیکھتے ہیں بتا؟
میں روشنی ہوں فلک پر ۔۔۔۔۔۔۔۔قیام کرتی ہوں

عصرِجدیدکی ابھرتی ہوئی خوشبودارلہجہ کی منفردشاعرہ کرن وقار ان کی شاعری سے کچھ انتخاب جس میں مختلف موضوعات کا رنگ شامل ہے۔
چیختی آوازیں
بھیگی آنکھیں
گونجتی رہیں
استغفار کی صداٸیں
ہاۓ وہ لمحہ کیسا تھا ؟
ماں باپ کی آغوش میں
ننھے بچے خوف کے مارے چھپ گۓ
دل ڈوب رہا تھا
سانسیں اکھڑ رہیں تھیں
ہاۓ وہ کیسا لمحہ تھا؟
جب سب کچھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا
جب سب کچھ آگ میں جھلس گیا
کسی کو باپ نہ ملا
کسی کو ماں نہ ملی
کسی کو بچے نہ ملے
جسم جسم نہ رہا اور
روحوں نے آسمانوں پر پرواز کر لی۔

الفت میں اس مقام پہ آنا پڑا مجھے
امید کا چراغ بجھانا۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑا مجھے
جو رشتے توڑ بیٹھی تھی میں بے دلی کے ساتھ
مجبوراً ان کو پھر سے نبھانا پڑا مجھے
اس بے وفا سے ترک تعلق کے باوجود
جو اپنا حال تھا وہ بتانا۔۔۔۔۔۔۔پڑا مجھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں