63

ووٹ کی قیمت، کوئی پڑوسی دشمن سے سیکھے

ووٹ کی قیمت، کوئی پڑوسی دشمن سے سیکھے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

انتہائی خاموشی سے، اپنےقیمتی ووٹ استعمال کر، ظالم حکمرانوں سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جائے؟یہ 24 کروڑ پاکستانیوں نے،140 کروڑ ہندوستانیوں کو،عملاً کر کے بتادیا ہے۔ یہ اب عالم کی سب سے بڑی جمہوریت، 140 کروڑ بھارت واسیوں کو، ابھی کچھ مہینوں بعد والے عام انتخاب میں، ہر قسم کے، اپنے ذاتی مذہبی تفکرات کو بالائے طاق رکھے، اپنے چند برہمنی پونجی پتیوں کو،عالم کے بڑے پونجی پتی بنانے کے چکر میں، عام بھارت واسیوں کے خلاف قانون وضع کرتے،دو کروڑ نئی نوکری سالانہ دینے کے وعدے پر آئےمہان مودی جی نے، سابقہ پینسٹھ سالہ کانگریس راجیہ میں پہلے سے نوکری پر رہے،

دس کروڑ کےقریب بھارت واسیوں سے،ان کےروزگار چھینتے ہوئے، بیروزگاری مہنگائی کی شرح، اب تک کی سب سے اونچائی پر لیجاتے ہوئے، اور اپنی معشیتی ناکامی چھپانے، ہزاروں سال، محبت چین آشتی سے رہتے آئے، ھندو مسلمان مسیحیوں کے درمیان، زبردستی منافرت کا بازار گرم کرتےاور کرواتے ہوئے، ای ڈی، انکم ٹیکس جیسے سرکاری محکموں کو، اپنے سیاسی دشمنوں کو سبق سکھانے اسکا غلط استعمال کرتے ہوئے،

اور غیر متنازع الیکشن کمیشن و عدلیہ پر بھی غیر ضروری سنگھی دباؤ ڈالے، الیکشن کمیشن و عدلیہ عالیہ کے اعلی اقدار تک کو،عوامی نظروں میں کمزور و پامال کرتے ہوئے، بھارت واسیوں کو بھارت میں رہنے لائق نہ چھوڑنے والے، ان سنگھی حکمرانوں کو، اپنے ووٹوں کے، صحیح استعمال سے،140 کروڑ بھارت واسی کیسے، ان سنگھی حکمرانوں کو سبق سکھاتے ہیں، یہ دیکھنا اب باقی رہ گیا ہے
پڑوسی دشمن پاکستان کے عوام نے، حکومتی مشینری کے خلاف، اپنے نمائندوں کو، اپنے قیمتی ووٹ سے کیسے جتاتے ہیں یہ ہم 140 کروڑ بھارتیہ عوام کو بتا دیا ہے۔ آر ایس ایس ، بی جے پی،مہان مودی جی پر،ای وی ایم چھیڑچھاڑانتخاب جیتنے کے الزام پیش نظر، بھارت میں 2014 تک، عوامی حکومت ہی رہی ہے۔ لیکن پڑوسی پاکستان میں،آزادی ملک و وطن سے ہی، ہمیشہ،محافظان وطن ہی کی حکومت رہی ہے

۔ کبھی وہ محافظان وطن،براہ راست خود ملک و وطن پر،اپنی مارشل لاء حکومت چلاتے ہیں تو کبھی، کبھی خود صدر مملکت عہدہ تبریک پر قابض رہے،عوامی حکومت چلانے کا ناٹک کرتے ہیں تو کبھی، تحفہ میں بظاہر زمام حکومت زرداران تو کبھی شرفاء کو دئیے، اندرون خانہ خود حکومت کرتے پائے جاتے ہیں۔ جو بھی سیاست دان،ان محافظان وطن کے اشاروں پر،ان کی مرضی مطابق، حکومت کرنا منظور کرتے ہیں،

انہیں زمام حکومت تحفہ میں دی جاتی ہے۔پاکستان کو عالمی کرکٹ کپ دلوانے والے، ہارورڈ یونیورسٹی کےطالب علم، و ہارورڈ یونیورسٹی ہی کے پروفیسر رہے،اعلی تعلیم یافتہ،خود کی صلاحیتوں سے کروڑ پتی رہے عمران خان نے،اپنی والدہ ماجدہ مرحومہ کے نام نامی سے، خود کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، عالمی معیار کا کینسر ہاسپٹل تعمیر کر، عام پاکستانیوں کو تحفہ میں دئیے، اپنے ‘مشن شفایابی سقم کینسر’ تکمیل بعد، دو دہوں کی کڑی محنت سے، تحریک انصاف نامی اپنی سیاسی پارٹی بنائے، اپنا سیاسی سفر آگے بڑھاتے ہوئے،2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر پہنچے تھے

۔ان کے بارے میں بھی یہ مشہور ہوا تھا کہ، محافظان ملک و وطن کے ساتھ اندرون خانہ سمجھوتے کے تحت ہی، وہ پاکستان کے حاکم اعلی بنائے گئے تھے۔ لیکن اپنے طور خوددار مخلص، عوامی خدمت گار، عمران خان نے،کورونا وبا دوران، جہاں بڑے بڑے عالمی معیار والے ملکی حکمران، اپنے اپنے ملک کی معشیت کو سنبھالنے میں ناکام رہے تھے وہیں،انتہائی تناؤ والے ماحول میں بھی، ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھنے والے عمران خان نے،مسیحائے قوم سمجھے جانے والے تین دفعہ کے پرائم منسٹر رہے نواز شریف کے زمام حکومت میں، کمزور و ناتواں بنائے، بند رکھی گئی ٹیکسٹائل صنعت کو، کوروناوبا دوران،جزوقتی چلائے، اپنے ملک کی ڈوبتی معشیت کو، جس انداز سنبھالا تھا،

عمران خان کو، بیرون ملک کے ساتھ ہی ساتھ، ملک و وطن میں بھی، عوامی پذیرائی ملتے پس منظر میں، کہیں عمران خان، اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے، قائد اعظم ثانی نہ بن بیٹھیں اسلئے، محافظان وطن نے، ان کے تعمیری کاموں میں رخنے روڑے اٹکاتے ہوئے، ان کے آگے پیچھے، کانٹے بچھانا شروع کردیئے تھے۔ عمران خان، اپنے تخیلاتی تفکراتی اونچی اڑان بھرنے کے تفکر میں،جہاں سعودی عرب، ایران درمیان، چار دہے کے اختلافات ختم کرواتے ہوئے، امت مسلمہ عالم کو،ایک پلیٹ فارم پر لانے کے فراق میں سرگرداں تھے تو، سربراہ عالم، صاحب امریکہ، غلامی کے تسلط سے ملک و وطن کو حقیقی آزادی دلوانے

، روس و چائینا سے تفاہم کرتے ہوئے، فریقین کے درمیان خود کی کرنسی تجارت والے، صدیوں پرانے بارٹر سسٹم معشیت واپس لاتے ہوئے، اپنے اپنے ملکی کرنسی کو تقویت پہنچواتے، عالم کے انیک پس ماندہ و ترقی پزیر ممالک کو،عالمی بنک قرضہ جات، ڈالر شکنجہ سے آزاد کرواتے، صاحب امریکہ کے عالم کی سرداری کو چیلنج کرتے ہوئے، بیک وقت،عالمی معشیت پر اپنے پنجے گاڑھے، یہود و نصاری عالمی سازش کنندگان سے، چومکھی لڑائی لڑنے کی حماقت کیا کر بیٹھے؟ کہ،صاحب امریکہ نے،ملک و وطن میں موجود اپنے زرخرید محافظان ملک و وطن کو، ‘حکم سائفر’ بھیج، عمران خان کو وقت سے پہلے، ایوان وزارت عظمی سے، محروم کرنے کے فیصلے جب لئے گئے تھے

تب، اس وقت کچھ حد تک سیاست سیکھے عمران خان کی طرف سے لئے گئے اسپیکر اقدام پر، محافظان ملک و وطن ہی کے اشارے پر، ملک کی عدالت عالیہ تک نے، از خود نوٹس لئے،عدالت بند اوقات میں، عدالتوں کے دروازے کھولے، عدالتیں سجائے، عدالتوں کے اقدار کو پامال کئے، ہاتھ میں فقط ڈائری لئے، عمران خان کو،اپنےگھر بنی گالا واپس بھیجنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ملک و وطن کی توقعات سے پرے، عالمی کرکٹ کپ دلوانے والے عمران خان سے،وزیر اعظم بننے کے بعد، عوام نے جو توقعات رکھی تھیں،

سابقہ 75 سال ملک و وطن کو دیمک کی طرح چاٹنے اور زرداران و شرفاء کے ہاتھوں ملکی ریسورسز لٹوانے والے، محافظان قوم و وطن کے عدم تعاون کی وجہ، اپنے تین سالہ زمام حکمرانی، عوام کی توقعات پر پورا نہ اترنے والے عمران خان کا، عوامی قدر و منزلت والا گراف، وزارت عظمی سے برطرف کئے جاتے وقت کافی گرچکا ہوا تھا۔اور وقت کے گرداب میں عمران خان،شاید ملک و وطن کی تاریخ کا قصہ پارینہ بھی بن چکے ہوتے، لیکن انہیں عملی سیاست سے بےدخل کئے،محافظان قوم وطن نے،اقتدار ملک وطن،سابقہ تیس چالیس سال، باری باری ملکی ریسوسز کو لوٹنے والے شرفاء و ذرداران کے متفقہ ٹولا اشتراک کے سپردجوکیاتھا، محافظان وطن کی تمام تر مدد و نصرت باوجود، رزداران و شرفاء کے مشترکہ ٹولے نے،ملکی معیشیت سنبھالے، اسے پٹری پر لانے کے بجائے،

سابقہ تین چار دہے دوران حکمرانی، انکے کالے کرتوتوں پر عاید، مختلف مقدموں کوختم کرنے اور کروانے ہی پر تمام تر صلاحیتیں صرف کرتے ہوئے،اور ساتھ ہی ساتھ مستقبل کے انتخاب میں عمران خان کو ناپسندیدہ قرار دلواتے، اسے سیاست سے تڑی پار کروانے کی سعی پیہم ہی میں، وہ حکمران ٹولا اور محافظان وطن ملکر، انسداد بے ایمانی ادارہ نیب و عدلیہ عالیہ پر غیر ضروری دباؤ ڈالے، وہ عمران خان پر نازیبا کردار کشی والے اپنے جارہانہ عمل سے، اپنی سیاسی ناتجربہ کاری کے باعث بیک وقت، چومکھی جنگ لڑتے،

اپنا اقتدار کھونے والے،عمران خان کو، بتدریج تجربہ حاصل کرتے، کندن بنے، وقت کے سیاسی لیڈر سے، قائد ملت بننے کی راہ پر اسے گامزن کردیا ہے۔ عالمی سربراہ، صاحب امریکہ نے محافظان وطن پر اپنا دباؤ برقرار رکھے، سابقہ نصف صد سے، اقتدار ملک و وطن کے مزے لوٹنے والے شرفاء و زرداران کو،تمام تر حکومتی مراعات سہولیات عطا کئے، جھوٹے مقدمات میں عمران خان کو پھنسائے، اسے اس کبار سنی والے پیران حالی میں بھی، کئی مہینے سے جیل کی کال کوٹھری میں مقید رکھے،

اسکی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی تک کو، انتخابی نشان سے محروم کئے، عمران کے ساتھیوں کو آزاد انتخاب لڑتے پس منظر میں بھی، انہیں تضحیک آمیز انتخابی نشان دئیے، انہیں ہمہ وقت ہراساں کئے، انتخاب سے قبل، ممکنہ وزارت عظمہ و کابینہ وزرا تک کی بندر بانٹ تشہیر کئے، یہاں تک کہ، الیکشن کمیشن کے اعلی اقدار تک کو داؤ پر لگائے، اپنے چہیتے شرفاء و زرداران، مشترکہ ٹولے ہی کو، اقتدار دینے کی تمام تر کوشش و کاوش درمیان ملک وطن کے، عوام کی ووٹ قیمت صلاحیت کی داد دینی پڑتی ہے،کہ کیسے وہ انتہائی خموشی کے ساتھ محافظان وطن کے عتاب سے بچتے بچاتے خود کو محفوظ رکھتے،

انتخاب والے دن پورے جوش و خروش کےساتھ، اپنے قیمتی ووٹ صرف اور صرف اپنے چہیتے عمران خان کے تفویض کئے، کرداروں،رضاکاروں کو جتواتے،اپنے کل کے ناتجربہ کا خدمت گار عمران خان کو ملک و وطن کی تاریخ کے سب سے نمایاں جیت دو تہائی اکثریت ریکارڈ کے ساتھ ملک و وطن کو انگریزوں سے آزادی دلانے یا دلوانے والے قائد اعظم ہی کی طرح، بعد آزادی ملک و وطن پچھتر سال بعد، ان انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے، قوم ملت کے لٹیرے زرداران و شرفاء و محافظان ملک و وطن سے، حقیقی آزادی دلوانے والے عمران خان کو، قائد اعظم ثانی کے،مقام مہمیز تک پہنچا چکے ہیں

اس پاکستانی عام انتخاب میں، سابقہ 40 سال تک ملک و وطن پر حکمرانی کرنے والے بڑے بڑے لیڈران ،3 مرتبہ کے وزیر اعظم نواز شریف اور انکی لاڈلی متجوزہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز (چاچی 420)، سابقہ وزیر اعظم شہباز شریف، معشیتی بازیگر مشہور سابق وزیر خزانہ خواجہ آصف جیسے ڈگج لیڈران شکشت کھاتے ہوئے، ریکارڈ ساز عمران خان جیت کا سہرا،جہاں عمران خان کو، وقت کے نازی حکمرانوں سے سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے، عوام کو حقیقی آزادی دلوانے، اس کے درشائے جذبہ و ہمت و ولولے کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے

،وہیں ہم بھارت واسیوں ہی کی طرح مہنگائی کی ماری اور اپنے حکمرانوں کی ستائی عوام کے، اپنے نازی حکمرانوں کے خلاف،اپنے ووٹوں کا صحیح استعمال کرنے کی صلاحیت پر، داد دینے کو بھی دل چاہتا ہے۔ پڑوسی دشمن ملک پاکستان ووٹ کی طاقت جیت کا سہرا دراصل وہاں کے پرانے طرز انتخاب بیلٹ پیپر ووٹنگ سسٹم کو جاتا ہے، پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف بھارتیہ حکمرانوں سے اپنے تجارتی تعلقات استوار کئے،ہندستان ہی کے طرز پر ،ای وی ایم طرز انتخاب متعارف کروانے والے تھے

۔ اگر پاکستان میں ای وی ایم طرز انتخاب ہوتا تو،یقیناً محافظان قوم و ملت، بڑی آسانی کےساتھ، اپنے ای وی ایم چھیڑ چھاڑ سے، عمران کو شکشت فاش دئیے، اپنے چہیتے زرداران و شرفاء کو مسند اقتدار اعلی پر آسانی کے ساتھ براجمان کرچکے ہوتے۔ لیکن پاکستان میں ابھی تک وہی پرانا بیلٹ پیپر طرز انتخاب رہنے کی وجہ سے، بہت بڑے الٹ پھیر سے وہ آمان میں رہتے پائے گئے ہیں۔ عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں بھی،حکمران سنگھی ٹولا، تمام تر حکومتی ایوانوں سمیت، بظاہر آزاد متصور عدلیہ و الیکشن کمیشن تک کو، اپنے قابو میں کئے، ای وی ایم چھیڑ چھاڑ بڑی آسانی سے، اپنے ہارنے والی بازی کو، جیت میں بدلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مہان مودی جی، 2019 عام انتخاب سے قبل ، پھلوامہ دہشت گرد حملے کے بہانے 40 بی ایس ایف جوانوں کی آہوتی دئیے،پڑوسی دشمن دیش پر اسکا الزام لگائے،

بدلے کی کاروائی کے طور کہر آلود بادلوں کا سہارا لئے،دشمن ملک پر ہوائی حملہ کئے،دشمن ملک کے ایک کالے کوئے کو مارتے ہوئے، مختلف صوبوں والے گاؤں دیہاتوں میں، شہید فوجیوں کے پارتو شریر کو، بڑے طمطراق انتخابی مہم کی طرح لے جاتے ہوئے، فوجیوں کے پارتو شریر پر ووٹ مانگے، اپنے ای وی ایم چھاڑ چھاڑ فرضی جیت کو، دیش بھگتی والی جیت ثابت کرنے والے، بھارتیہ سیاست کے سب سے شکتی سالی، سنگھی رام راجیہ کے مہاویر مودی جی نے ، ادھ تعمیر رام مندر کو، تمام تر ھندو دھرم گرو چاروں شنکرا چاریہ کی مرضی و بائیکاٹ باوجود، قبل از وقت رام مندر، “پران پرتشٹھا مہوتسو” مناتے ہوئے

، 2024 عام انتخاب کو بھی، اپنے رام کرپا جیت ٹہرانے کے فراق میں مہان مودی جی مست لگتے ہیں۔دیش کے اعلی تعلیم یافتہ مختلف سول سوسائیٹی اراکین اور دئش کی عدلیہ عالیہ کے وکلاء، سب مل کر، دہلی جنتر منتر پر ای وی ایم طرز انتخاب مخالف احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے، سپریم کورٹ میں، ای وی ایم مخالف قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمیں امید یے اب کی 2024 منعقد ہونے والے انتخابات بیلٹ پیپر ہوتے ہوئے، صحیح معنوں کافی عرصے بعد، عوامی امیدوار ہی، عوامی ووٹوں سے،عوام پر، حکومت کرنے، جیت کر آسکیں گے۔انشاءاللہ۔پھر بھی دیش کی تاریخ کے سب سے شکتی سالی مہاویر مودی جی کو،اپنے رام کرپا پربھروسہ ہے تو، بیلٹ پیپر انتخاب کروانے کی راہ کا روڑا نہ بنیں اور عوامی ووٹ ہی کے سہارے انتخاب جیت کر تیسری مرتبہ بھی وزیر اعظم بن کر دکھائیں۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں