بچے ضدی کیوں بنتے ہیں؟
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ہر گھر کی نساء پریشان ہیں کہ آخر بچے اتنے ضدی کیوں بنتے ہیں؟ ہمارے گھر میں کوئی ایسے ضدی تو نہ تھے۔ کس پر گئے ہیں یہ بچے سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ بچے ضد کرتے ہیں اسی لئے تو انکی تمام طلب کی ہوئی چیزیں انہیں دی جاتی ہیں، انکے ضد کرنے پر بعض وقت انہیں اتنی بڑی طرح مارتے بھی ہیں کہ مارنے والے والدین تکھ جائیں، پھر بھی بچے ضد کرنا نہیں چھوڑتے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
کہ ضد کم ہی نہیں پڑتی ہے؟اصل میں بچے اس طرح ضد کیوں کرتے ہیں؟ اسکے اسباب پر تدبر، غور و فکر ہی نہیں کرتے ہیں۔ ہمارا خیال اس طرف جاتا ہی نہیں کہ بچے ضد کیوں کرتے ہیں؟ بچے ضدّ کرتے ہوئے کسی کی بات سنتے ہی نہیں،اسلئے والدین پریشان تو ہوتے ہیں؟ ڈاکٹروں سےمشورے بھی کرتے ہیں، دوائیاں بھی کھلائ جاتی ہیں۔ بچوں کا ضد پھر بھی کم نہ ہوتو، مولانا مولوی کے پاس تک لیجا پھونک مار دعا کروائی جاتی ہے۔ لیکن بچوں کے ایسے ضدی ہونے کے اسباب تلاش کرنے کی صحیح معنوں کوشش پھر بھی نہیں ہوتی ہے
دراصل بچوں کو لگتا ہے کہ اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے جتنا کہ اسے ملنے کی توقع ، اسے ہوتی ہے، اپنی طرف والدین کو ہمہ وقت متوجہ کروانا چاہتے ہیں۔ مسلم معاشرے میں بچیوں کی کم عمری میں شادی کی جاتی ہے ۔ عمر پختہ نہ عقل کی پختگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسکی پڑھائی میں اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ گھر گرہستی کے امور خانہ داری سنھالنے کے فقدان باوجود،، پڑھائی کے اختتام سے پہلے ہی، اچھا رشتہ نظر آتے ہی، فوراً شادی کردی جاتی ہے، شادی بعد ایک سال میں ہی وہ ماں بن جاتی ہے
ڈیلیوری ہوئے کچھ ماہ بعد دوسری بار حاملہ ہونے کی خبر آجاتی ہے۔ ابھی وہ خود کو سمجھ نہیں پاتی ہے کہ دو تین اولاد کی پرورش کی فکر، پہلی اولاد ابھی چھوٹی ہی ہے کہ اس پر توجہ کیا مربوظ کرے کہ دوسری اور تیسری اولاد، آخر وہ بیچاری کس بچے پر توجہ دے؟ گھر میں موجود دیگر رشتہ دار بھلے ہی بچوں کی دیکھ بھال کرنے، اسکی مدد کرتے ہیں لیکن اولاد ہے کہ اپنی ماں کی چاہت الفت کی بھوکی ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی ماں کے اسے نظر انداز کئے جانے کو محسوس کرتے ہیں،تو انہیں ،
اپنی ماں کو خود کی طرف مائل کرنے، رونے دھونے یا ضد کرنے کا جذبہ خود بخود عود کر آہی جاتا ہے۔جب بچے میں ضد کی کیفیت پیدا ہونے کے سبب کا پتہ چل جائے۔ تب پھر ماں کو چاہئیے کہ وہ اپنے ایک سے زائد بچوں کے درمیان تفاوت برتنے سے اجتناب کرے۔گھر کی پکوان،صاف صفائی سمیت گھر کے دوسرے کام ، گھر کے دوسرے مکین کرتے ہوئے، کثیر اولاد ماں کو،اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اسے یکہ و تنہا چھوڑ دیا کریں۔
پہلے بچوں کے رونے پر اسکے منھ میں چوسنی دے دی جاتی تھی لیکن اب اس کے ہاتھوں میں نہ صرف انسانی قلب و ذہن، بلکہ ننھے بچوں کی فکری و دماغی پرورش میں مانع بننے والے،الٹرا وائیلٹ شعاؤں سے لبریز اسمارٹ فون، ان ننھے ہاتھوں میں تھما دئیے جاتے ہیں۔ وقتی طور اسے خاموش کرنے والی ہماری ان لغزشوں ہی سے بچوں میں اپنی بات منوانے والا جذبہ ضد پنپنے لگتا ہے جو بڑھتی عمر کے ساتھ قوی تر ہوتے ہوئے، اسے خود سر ضدی اڑیل بنا جاتا ہے۔اس لئے ضروری ہے
ان کے اذہان کی تربیت کیا کرتے تھے۔ ان کہانیوں کو سن سن کر، ہر بچے کے قلب و ذہن میں، اسکے اپنے مستقبل میں بڑا ہوکر کیا بننا ہے، یہ خاکہ یا رول ماڈل اسکے ذہنوں میں پرورش پارہا ہوتا ہے۔جن بچوں کو بچپن میں دین اسلام کے اعلی اقدار سے متعارف نہیں کروایا جائے، ان سے انکی جوانی کو اخلاق و اقدار نیز دین اسلام سے بہرور ہونے کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟
اپنے بیجا لاڈ و پیار میں، صبح نماز کے لئے بچوں کو نہ اٹھانے والے والدین، جوانی کے ایام انکے دینی اعمال غفلت کے لئے ،کل قیامت کے روز ذمہ ٹہرائے جا سکتے ہیں، یہ احساس ہر مسلمان کو ہونا ضروری ہے۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو اپنی اپنی اولادوں کی دین اسلام،پورے اخلاق و اقدار تربیت کرنے والوں میں سے بنائے۔ آمین فثم آمین۔ بچوں کی اسلامی نہج تربیت پر مختلف اقساط پر مشتمل بیان