ووٹ کو عزت دیناہو گی ! 60

خدشات کے منڈلاتے سائے !

خدشات کے منڈلاتے سائے !

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں کبھی دھاندلی سے پاک انتخابات نہیں ہوئے ہیں ، لیکن اس بار دھاندلی کے سارے ریکارڈ ہی توڑ دیے گئے ہیں ،اس کے خلاف احتجاج کی صدائیں ملک بھرمیں سنائی دیے رہی ہیں،ہر سیاسی جماعت تحقیقات کا مطالبہ کررہی ہے اور عدالت اعظمیٰ سے انصاف مانگ رہی ہے ،جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک متنازع انتخابات کے متنازع نتائج مسترد کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں ، میدان میں ہی ہوں گے ۔
اگر دیکھا جائے

تو یہ انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو گئے تھے ، اس انتخابات کو غیر متنازع بنانا ،نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی ،مگر انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی نہ ہی منصفانہ شفاف انتخابات کروا پائے ہیں ، اس کے باوجود سب اچھا ہے کہ آواز لگائی جارہی ہے ، جبکہ ہر سیاسی جماعت انتخابات کی شفافیت پر نہ صرف سوالات اُٹھارہی ہیں ، بلکہ احتجاج اور دھرنے بھی دیے رہی ہیں ، جبکہ مولانا فضل الرحمن کے بیان نے سیاسی ماحول کو ایک بار پھر گرما دیا ہے ، اس سے الیکشن کے بعد ملک میں ساز گار فضا کی جوشمعِ اُمید روشن ہوئی تھی ،وہ ایک بار پھر بجھتی دکھائی دیے رہی ہے ۔
پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں ہے کہ اس کے چاروں طرف کوئی آہنی دیواریں کھڑی ہیں اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کی خبر دنیا کو نہیں ہورہی ہے ،اس ملک میںجو کچھ بھی ہورہا ہے، اسے پوری دنیا بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی ہے اوراپنی من مانی کرنے والوں کا مذاق بھی اْڑا رہی ہے، یہ ان سب کو معلوم ہے کہ اس انتخابات سے پہلے ایک پارٹی کولانے اور دوسری کو ہٹانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا گیا ، اُس پارٹی پر ظلم و جبر کی انتہا کر دی گئی ،اس کے لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے گھروں پر چھاپے مارے گئے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو کھلے عام پامال کیا گیا،

ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، انہیں اپنے لیڈر کے خلاف بیان دینے اور پریس کانفرنسیں کرنے پر مجبور کیا گیا، اس ظلم و ناانصافی کا بدلہ عوام نے عام انتخابات میں اپنے ووٹ کے زور پر لیا ہے، لیکن اس عوامی فیصلے کو بھی دھونس دھاندلی سے بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس وقت حکومت سازی اکثریت میں آنے والوں کا حق ہے، لیکن یہ حق دینے کی بجائے چھینا جارہا ہے ،اس سے قبل بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا تھا،

اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے،لیکن اس سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا،ایک بار پھر اقتدار اکثریت کے حوالے کرنے کے بجائے ہاری ہوئی جماعتوں کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک نئے فار مولے کے تحت مخلوط حکومت بنائی جارہی ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں، اب اقتدار کی بندربانٹ کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئی ہیںاور کچھ آزاد نمائندوں پر بھی ڈورے ڈالے جارہے ہیں،اگر اس طرح حکومت بن بھی گئی تو اسے کوئی مانے گا نہ ہی عوام کی تائید حاصل ہوگی اور اس کی پیشانی پر شکست صاف لکھی نظر آتی رہے گی۔
اس صورتحال کے پیش نظر محب وطن قوتوں کا منصفانہ مشورہ ہے کہ پاکستان کی بقا اور استحکام کے لیے آزمائے کو آزمائیں نہ ہی اپنے سابقہ ناکام تجربات دہرائیں، بلکہ اکثریتی پارٹی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور انہیں ساری سیٹیں واپس کردیں ،جوکہ ان سے دھاندلی سے ہتھیالی گئی ہیں اور انہیں مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنانے کا موقع دیں، حریف سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام بھی کشادہ دلی اور جمہوری رویے کا مظاہرہ کرے، آخر پانچ سال بعد پھر انتخابات ہونے ہیں

، اگر پی ٹی آئی عوام کو کچھ ڈیلیور نہ کرسکی تو اس کا سحر ٹوٹ جائے گا اور اس کی حریف جماعتیں پھر اپنی کثریت سے برسراقتدار آسکیں گی، اگر اب ایسا نہ کیا گیااور پی ٹی آئی کو اس کا اصل حق بروقت نہ دیا گیا تو یہ ’’جن‘‘ ان کی جان کو چمٹا رہے گا اور ان کا جینا دوبھر کردے گااوران کی حکومت کسی صورت چلنے نہیں دیے گا۔
یہ وقت اختلافات بڑھانے کا نہیں ، مفاہمت کرنے کا ہے ،، لیکن مولانا نے ’ایوان کی بجائے میدان‘ میں فیصلہ کی جو بات کررہے ہیں، اس سے قومی سیاست میں ایک نئے انتشار کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے، مولانا حکومت کی تائید کے لیے اپنے پارلیمانی حجم سے زیادہ حصہ چاہتے ہیںیاپھر تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کے بالواسطہ اشاروں کا جواب دینے کے لیے اپنے دعوے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں

،لیکن اُن کی گھن گرج بے اثر ہی دکھائی دیے رہی ہے ، ملکی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی و معاشی استحکام کی خاطر سے ہرپارٹی کی لیڈر شپ کو اپنی انا کے گھوڑے سے اترنا ہوگا،حکومت سازی کے مر حلے پر خدشات کے منڈ لاتے سائے سے باہر نکلنا ہو گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں