آزمائے اشتراک اقتدار فارمولے کی آزمائش !
عام انتخابات میں مینڈیٹ کچھ ایسے تقسیم ہوا ہے کہ کوئی جماعت بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرپائی ہے،اس صورتحال میں اتحادی حکومت کا ہی امکان تھا ،جوکہ پورا ہوتا دکھائی دیے رہا ہے،مسلم لیگ( ن)اور پیپلز پارٹی میں شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پا گیا ہے ،اس کے تحت ہی دونوں جماعتوں نے اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کر دیا ہے ،اس معاہدے کے مطابق چیئر مین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری صدر اور میاں شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے، پیپلز پارٹی آئینی عہدے ضرور لے گی ،مگر وفاقی کا بینہ میں شامل ہو گی نہ ہی کوئی وزارت لے گی،جبکہ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت مشاورت سے آگے بڑھے گی اور آزمائے اشتراک اقتدار فارمولے کے تحت ہی پا کستان کو مشکلات سے باہرنکالے گی۔
پا کستان میں اتحادی حکومت پہلی بار بنے جارہی ہے نہ ہی آزمائے اتحادی پہلی بار اپنی صلاحیتیں آزمانے جارہے ہیں ، یہ سارے ہی آزمائے لوگ ہیں او ر یہ سارے ہی آزمائے فار مولے ہیں کہ جن کے تحت اتحادی حکومت بنے جارہی ہے ،اس اتحادی حکومت نے اپنے پہلے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں ملک وعوام کا جو حال کیا ہے ،اس بھی برا حال آئندہ کر نے والی ہے ، یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی طاقتور حلقے بضد رہے ہیں
کہ آزمائے کو ہی آزمانہ ہے اور انہیں ہی دوبارہ اقتدار میںلا نا ہے ، اس کے لیے انتخابات میں دی جانے والی عوامی رائے کوبدلا گیااور بند کمروں کے ہی فیصلے کو مسلط کر دیا گیا ہے،ایک بار پھر اشراک اقتدار کا آزمایا فارمولہ دوبارہ آزمایا گیا ہے۔اس بے انصافی پرعوام جائیں تو جائیں کہاں ، کہاں فر یاد کریں ، کونسی زنجیر عدل ہلائیں کہ اُن کی دادرسی ہو پائے ، عوام کی دادرسی کرنے والا کوئی در دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے
، الیکشن کمیشن سے لے کر عدالت عظمیٰ تک کہیں کوئی سنوائی ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، آٹھ فروری کو دی جانے والی عوامی رائے کو کیسے نوں فروری کو بدلا گیا ہے ، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ،عوام فارم 45 کے ثبوت ہاتھ میں لیے در بدر ہیں ، لیکن کسی ادارے کو ثبوت دکھائی دیے رہے ہیں نہ ہی کوئی ادارہ نوٹس لے رہا ہے ، عوام کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے بند کمروں کا فیصلہ مسلط کیا جارہا ہے اور کوئی پو چھنے والا ہے نہ کوئی روک رہا ہے ، سارے ہی جی حضوری میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں،جبکہ پاکستان کی معاشی صورت حال انتہائی دگر گوں ہے،افراط زرکا ناقابل برداشت بوجھ پریشان کیے ہوئے ہے، رواں مالی سال میں 27 ارب ڈالر بیرونی قرضوں پر سودکی مد میں ادا کرنا ہے ، حکومت ایسے آزمائے لوگوں کو دی جارہی ہے جوکہ نہ صرف ناکام ہوئے ہیں ،بلکہ ملک کی بدحالی کے بھی ذمہ دار رہے ہیں ،یہ آزمائے لوگوں کی حکومت ابھی بنی نہیں ہے کہ بجلی، گیس ،پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے، پاکستان کے غریب لوگ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ کے نیچے کراہ رہے ہیں،
اس پر اب بڑے فیصلے کرنے کی آڑ میں مزید بوجھ ڈالا جائے گا، عوام کے ہی گلے پر چھری چلائی جائے گی اور اُن سے ہی ایک بار پھر قر بانی مانگی جائے گی ۔آزمائی اتحادی قیادت کے پاس کوئی معاشی پلان ہے نہ ہی انہوں نے سنگین معاشی مسائل کے حل کیلئے کوئی روڈ میپ دیا ہے،یہ حصول اقتدار اور عہدوں کی بندر بانٹ کا ہی پلان لے کر آئے ہیں اور اس پرہی عمل پیراں دکھائی دیتے ہیں، انہیںملک کے حالات کے پیش نظر ایک مشترکہ ایجنڈاپنا نا چاہیے تھا
اور کمر کس کے ملک کو قرضوں کے پہاڑ تلے دبنے سے بچانا چاہیے تھا ،اس کے ساتھ بتانا چاہیے تھا کہ عوام کو کس طرح ریلیف دیا جائے گا،لیکن اس ضمن میں کوئی بات ہی سامنے نہیں آرہی ہے،اْوپر سے انتخابات کی کریڈیبلٹی پر بھی سوال اْٹھائے جا رہے ہیں، قرضے دینے والے غیر ملکی ادارے ضرور پو چھیں گے کہ متنازع انتخابات کے ذریعے بنے والی نئی حکومت کی ساکھ کیا ہے اور کیا نئی حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟پا کستان میں ہونے والے انتخابات کی ساکھ کسی سے ڈھکی چھپی ہے
نہ ہی آزمائی قیادت کی صلاحتیں کسی سے پوشیدہ رہی ہیں ، معاشی بحران سے نکالنے کیلئے آزمائی قیادت چارٹر آف اکانومی کی باتیں تو بہت کر رہے ہیں ،مل کر بحرانوں سے نکالنے کی بھی باتیں ہورہی ہیں، لیکن ان میں کوئی ایک بھی لیڈر اتنا قدکاٹھ نہیں رکھتا ہے کہ آگے بڑھ کر چارٹر آف اکانومی پر ساری سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر سکے، مل کر آگے چل سکے ، اس وقت حالت یہ ہے کہ ساری ہی جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگارہی ہیں ،ایک دوسرے کو ہی ذمہ داری قرار دے رہی ہیں، اس ماحول میں پاکستان کے عوام پریشان اور حیران ہیں کہ انہوںنے جس سیاسی استحکام اور اپنے بہتر مستقبل کیلئے ووٹ ڈالے تھے، اْن کا کیا بنااور اُن کے ساتھ کس نے کو نسا ہاتھ کر دیا ہے ؟
عوام تو اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ اِن انتخابات کے بعد ملک میں استحکام آئے گا،لیکن ملک تو ایک نئے پریشان کن انتشار کی زد میں آگیا ہے، اس بحران سے نکلنے کیلئے انتخابات کی مانیٹرنگ کرانے والے ادارے فافن نے تجویز دی ہے کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کا آڈٹ کرائے اورتمام متنازعہ حلقوں میں اْمیدواروں کے ساتھ نیوٹرل مبصرین کو بلا کر اْن کے سامنے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائے ،اس بعدجو نتائج سامنے آئیں، اس کا اعلان کرایاجائے،یہ ایک اچھی تجویز ہے، اس پر دیانت داری سے عمل ہوجائے تو کافی حد تک بحران کا خاتمہ ہوسکتا ہے، عوام کی رائے کا احترام ہو سکتا ہے ،لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،یہ انتخابی دھاندلی کا بحران ہی اتحادی حکومت کولے ڈوبے گا۔