اور لائین کٹ گئی 52

عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا گرتا عدالتی معیار

عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا گرتا عدالتی معیار 

نقاش نائطی
۔ +9665626777707

500 سو سالہ قدیم بابری مسجد آزادی ھند بعد، اسلام کے نام پر پاکستان بنائے جاتے،ھمدو مسلم منافرتی تناظر میں،شب کی تاریکیوں میں، مسجد کی دیوار پاندھ کر،مسجد کے محراب والی جگہ پر رام للہ کی مورتی رکھتے ہوئے، از خود رام للہ کی مورتی مسجد کے اندر نمودار ہونے کا واویلا مچاتے ہوئے، ھندو مسلم فساد کا ڈر ظاہر کر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ حکم نامہ سے، ٹالا بند کی گئی مسجد کو، کسی ھندو کی طرف سے رام للہ کے درشن کے لئے،کورٹ میں لگائی گوہاڑ پر،1984 مسجد کے اندر زبردستی رکھے گئے رام للہ کی پوجا کرنے کی اجازت دیتا عدلیہ ھند کا فیصلہ اور پھر 1992 عوامی ہجوم کے ہاتھوں، بابری مسجد شہادت بعد، اس منہدم جگہ پر، رام للہ رکھے اسکی پوجا کی اجازت دیتی بھارتیہ عدلیہ، اور تاریخ کے لمبے ترین چلے بابری مسجد کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے،

سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ یہ قبول کئے جاتے ہوئے کہ بابری مسجد 500 سال قبل تعمیر کئےجاتے وقت، کسی مندر کو منہدم کر مسجد تعمیر کئے جانے کے امکان کو مکمل خارج کرنے کے باوجود، 1949 بابری مسجد مقفل کئے جانے سے قبل،مسجد میں رکھی گئی رام للہ کی مورت کو شرپسندوں کی طرف سے رکھے جانے کی بات تسلیم کئے جاتے ہوئے بھی، اور 1992 عوامی بھیڑ کے بابری مسجد شہید کئے جانے کو،وقت کا سب سے بڑا جرم تسلیم کئے جانے اور بابری مسجد قانونی ملکیت مسلمانوں کے پاس ہونے کو تسلیم کئے جانے کے بعد بھی، بابری مسجد قانونی ملکیت والی اراضی کو، قاتل بابری مسجد شدت پسند ہندوؤں ہی کے حوالے کیا جاتا عدلیہ کا فیصلہ، بھارتیہ عدالتی تاریخ کا تمسخر آمیز فیصلہ تھا۔

اب اسی مہینے دہلی کی 600 سال پرانی سلطان ھند شمش الدین التمش کے دور والی مہرولی کی اخوندجی مسجد،اسکے متصل عملاً موجود مدرسہ بحر العلوم اور ساتھ والے 600 سال پرانے قبرستان و مزار تک کوعدلیہ کی طرف سے حکم امتناع رہنے کے باوجود،جس طرح سے ڈی ڈی آئ نے،شب کی تاریکی میں، عدلیہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جس بے شرمی سے اس تاریخی مسجد کو غیر قانونی طور شہید کیا ہے عدلیہ کے اعلی اقدار کا تقاضہ تھا کہ از خود نوٹس لیتے ہوئے،

غیر قانونی تاریخی اخووندی مسجد شہید کرنے یا کروانے والے جملہ ڈی ڈی اے ذمہ داروں کی تنخواہوں سے،اسی جگہ دوبارہ مسجد تعمیر کروانے،ان پر جرمانے عاید کئے جاتے، لیکن بھارتیہ عدلیہ کی بے شرمی کی انتہاء دیکھئے کہ اس علاقے کے مسلمانوں کی طرف سے، اس تاریخی مسجدشہید کی ہوئی جگہ پر؟ عارضی طور نماز پڑھنے کی اجازت طلب کئے جانے کے باوجود،ہزار حیلے بہانے سے ،علاقے کے مسلمانوں کو،اس تاریخی مسجد والی جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت دینے ہی سے انکار کرتے ہوئے،

مسلمانوں کی طرف سے دائر کردہ پیٹیشن ہی کو خارج کردیا گیا ہے۔ اب کوئی بتائے ہزاروں سالہ گنگا جمنی بھارت کی عدلیہ میں، انصاف نام کے لئے بھی کچھ باقی رہ گیا ہے؟ کیا مہان مودی جی کے تخیلاتی رام راجیہ میں، اس دیش کی سب بڑی اقلیت، پانچویں حصہ کے ہم تیس کروڑ مسلمانوں کو، اب دیش کی عدلیہ سے بھی انصاف کیا نہیں ملیگا؟ ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرم کے کروڑوں اعلی تعلیم یافتگاں بھی، کیا

اس دیش میں ہزاروں سالہ مختلف المذہبی سیکیولر اثاث بقاء کی کوشش ترک کئے،جس کی لاٹھی اسکی بھینس مصداق اس دیش کو خانہ جنگی کی راہ پر گامزن ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ یہ بات 140 کروڑ دیش واسیوں کے علم میں رہے کہ جس دھرتی سے انصاف آٹھ جاتا ہے اس دھرتی کو تباہ و برباد ہونے سے بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں