حالات کسی بہتری کی غمازی نہیں کرتے !
اس ملک میں ایک بار پھر سے جمہوری عمل کا شروع ہونا نیک شگون ہے ،لیکن یہ جمہوری عمل جس طرح سے شروع ہورہا ہے اور جولوگ پارلیمان و حکومتی عہدوں پر فائز ہورہے ہیں ، اس میں نیا کیا ہے ؟ماسوئے چند ایک چہروں کے،وہ بھی محض عہدوں پر متمکن ہو نے کے حوالے سے ہی مختلف ہیں ، ان کی کار کر دگی ، کار نامے اور مقاصد تو سب پر پہلے سے ہی عیاں ہیں ، ان کے ایجنڈوں میں کو نسی تبدیلی آسکتی ہے ، انہوں نے پہلے بھی دوسروں کے دیئے گئے ایجنڈے پر عوام کو مشکلات سے دوچار کیا ہے ،یہ اب بھی انہیں کے ایجنڈے کے تحت عوام کو مزید مشکلات میں ہی مبتلا کر نے آرہے ہیں ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ عوام کے نہ چاہنے کے باوجود آزمائے کو ہی دوبارہ لایا جارہا ہے اور عوام کو ایک بڑی آزمائش میں ڈالا جارہا ہے ، عوام نے پچھلے پونے دوسال پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو بھگتا ہے ، اِن کے دور حکومت میں عوام پر مہنگائی ،بے روز گاری کے پہاڑ ٹوٹتے رہے ہیں ، اس کی پا کستان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ، اس کے باوجود ایک بار پھر وہی وزیر اعظم کیلئے مقتدرین کی آنکھ کا تارا قرار پائے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو سابقہ تجر بات کی روشنی میں عوام میاں شہباز شر یف سے کیا توقعات رکھ سکتے ہیں اور یہ ہی بات پیپلز پارٹی قیادت کے حوالے سے بھی کہی جاسکتی ہے ، یہ وہی پرانے بار بار آزمائے لوگ ہیں ، انہوں نے پہلے کچھ کیا ہے
نہ ہی آئندہ کچھ نیا کر تے دکھائی دیتے ہیں ، اس کے باوجود انہیں ہی لایا جارہا ہے تو کیا یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ سیاسی بساط پر وہی آزمائے پرانے ہی مہرے جمائے جارہے ہیں ،جوکہ صرف جی حضوری کے ساتھ حاضر سائیں میں ہی کمال رکھتے ہیں ۔اس ملک میں بار بار عوام کے ہی صبر کو آزمائے لوگوں کے ساتھ آزمایا جارہا ہے اور مجبور کیا جارہا ہے کہ انہیں سے اپنی بہتری کی اُمیدیں وابستہ رکھیں ، عوام نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس بار کو نسا تیر چلاتے ہیں ، کیا کچھ نیا کر دکھاتے ہیں ،انہوں نے الیکشن سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو بڑے سنہرے خواب دکھائے تھے ،
یہ خواب پورے کر نے کا وقت آگیا ہے ، اب ان سب کا اصل امتحان شروع ہونے جارہا ہے کہ یہ اپنے وعدئوں کے مطابق کیسے غریب عوام کو 300یونٹ تک مفت بجلی فراہم کریں گے ، مزدور اور ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہیں کیسے دگنی کریں گے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پرانی سطح پر کیسے لائیں گے ؟یہ سب کچھ ایک بار پھر ہونے والا نہیں ہے ، لیکن ایک بار پھر عوام کو دھوکہ دینے والوں کے چہرے بے نقاب ضرور ہو جائیں گے۔یہ صورتحال دیکھتے ہوئے ایسا لگنے لگا ہے کہ جیسے ملک کے با اقتدار طبقات کے دل میں احساس نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، اس کے باعث ہر سو مایوسی ہی مایوسی دکھائی دیتی ہے،کہیں بھی بہتری کی کوئی صورت نظر ہی نہیں آرہی ہے،
اس الیکشن سے بڑی اُمید وابستہ تھی کہ ایک بہتر مستقبل کی نوید لائیں گے ، نئی لیڈرشپ آئی گی، جوکہ ملک کی بگڑتی صورت حال کو سنبھالا دے گی اور مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے، لیکن نہ جانے اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ کسی سمت بہتری نظر ہی نہیں آرہی ہے، ہر سمت بے یقینی ہی چھائی ہے، لیکن ان حالات میں بھی عوام کی بڑی تعداد کی نظریں ایک ہی سیاستدان پر ٹکی ہیں، جو کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزار رہا ہے۔اس کی پارٹی کو عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے لوگ جوق در جوق گئے تھے،یہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائیگا !
لیکن عوامی رائے کو ہی بدل دیا گیا ہے ،اوپر سے ایک وہ ہے کہ کسی طور صلح جوئی کی طرف قدم بڑھانے کو تیار ہی نہیںہے ،اس پریشانی اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ جب کہتا ہے کہ اب میں یہاں سیٹ ہو گیا ہوں، اس کے باوجود نہ جانے کیوں لوگ اب بھی اس کی ہی طرف بھاگے پھرتے ہیں، کیو نکہ وہ ایسا ہے کہ اپنے ہی خاندان کے کسی فرد کو کوئی عہدہ یا نوکری دینے ولاہے نہ ہی کوئی مفادات پورے کر نے دیتا ہے
،اس کے باوجود ایک سے بڑھ کر ایک مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے ، سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، اللہ ہی فیصلہ سازوں کی سوچ بدلے اور اس قوم پر اپنی خصوصی مہربانی کرتے ہوئے یہاں کے حالات کسی بہتر سمت رواں کر دے، ورنہ بدلتے حالات تو کسی بہتری کی غمازی نہیں کررہے ہیں۔