نظام کو خطر ے میں نہ ڈلا جائے!
ملک میں ایک بار پھر سے پی ڈی ایم کی تین جماعتوں کی اتحادی حکومت بننے جارہی ہے،جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں انتخابی دھاندلی کے خلاف میدان میں ہیںاور انہوں نے ایوان بھی خالی نہیں چھوڑا ہے، منصوبہ سازوں کا بنا یا سارا منصوبہ سبوتاڑ ہوگیا ہے، اب سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا بڑا امتحان ہے کہ وہ ایوان کی طاقت کے ذریعے شہری آزادی و انسانی حقوق کی ضمانت کیسے حاصل کرتے ہیںاور ملک کو قر ضوں کے بوجھ سے کیسے نکالتے ہیں ، جبکہ ملک پر واجب الاداقرضوں کی مالیت 64 ہزار ارب روپے ہوچکی ہے ، نئی اتحادی حکومت کی اپنا اقتصادی مشینری پلان ضرور لے کر آئے گی، تاہم خیال رہے کہ عام آدمی مزید مہنگائی کا متحمل نہیں ہوسکتا،اب مراعات یافتہ طبقے کی باری ہے کہ جسے از خود رضاکارانہ طور پر آگے آناہو گا ، عوام مزید کوئی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
اس ملک کے عوام اب پہلے والے بھولے بھالے نہیں رہے ہیں ،عوام کے سیاسی شعور ، فکر ، تدبْر اور فہم و فراست میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے، عوام اب سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، وعدوں اور دعوئوں کو پرکھنے اور جانچنے کا مکمل شعور اور ادراک رکھتے ہیں، اس باشعور عوام کو اب آزمائے پرانے وعدئوں اور دعوئوں سے بہلایا جاسکتا ہے نہ ہی زبانی کلامی نمائشی اعلانات سے بہکایا جاسکتا ہے ، عوام اب موثر عملی اقدامات کے ذریعے ہی اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، عوام ملکی مفاد میں بہت قر بانیاں دیے چکے ہیں ، عوام اب قومی مفاد میں اشرافیہ کو قربانی دیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس بار عوام کی نہیں ، حکمران اشرافیہ کی بار ی ہے ، اس باربننے والی اتحادی حکومت کو ہر محاذ پرہی کئی سنگین چیلنجز کا سامنا رہے گا، اس وجہ سے ہی بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے حکومت سازی کے عمل کے بعد عوامی توقعات پر پورا نہ اْتر سکنے کے خدشات کا بَر ملا اظہارکیا جارہاہے،اس وفاقی حکومت کاسب سے پہلا کٹھن ترین امتحان تباہ حال ملکی معیشت کی بحالی ہے ،اس امتحانی پرچہ میں ماضی میں بننے والی اتحادی حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے،جبکہ اس بار ملکی معاشی بحران دن بدن بد تر ہوتا چلا جا رہا ہے، ملک پر پہاڑ کی مانند قرضوں کا بوجھ کم ہونے کی کوئی صورتَ نظر ہی نہیں آرہی ہے
،ایک طرف قرضوں کا بوجھ ملکی معیشت کو شدید متاثر کر رہا ہیتو دوسری جانب مہنگائی کے خوفناک طوفان نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔عوام جائے تو جائے کہاں ، عوام کو کہیں کوئی اُمید کی کرن دکھائی ہی نہیں دیے رہی ہے ، اُوپر سے آزمائے کو ہی دوبارہ آزمایا جارہا ہے اور عوام چھوٹا دلا سہ دیا جارہا ہے کہ یہ آزمائے لوگ ہی ساری آزمائش سے عوام کو نجات دلائیں گے ،جبکہ انہیں کی بدولت سارے ہی قومی ادارے خسارے میں جاررہے ہیں ،ملک میں صنعتیں چل رہی ہیں
نہ ہی زراعت فروغ پارہی ہے ، ملک میں ہر جانب ہی بد عنوانی ،لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، سرکاری اداروں میں قدم بہ قدم سیاست کی فضا اور ماحول قائم ہے، سرکاری تعیناتیوں میں سیاسی عمل دخل نے سارے میرٹ کا ہی گلا گھونٹ کررکھاہے،باصلاحیت پڑھے لکھے لوگ بے روز گار ہیں ،جبکہ نااہل شفارشیوں نے اداروں کو تباہ و بر باد کر دیا ہے،اس کے باوجود میرٹ کی زبانی کلامی باتیں تو بہت کی جاتی ہین ،مگر میرٹ پر کام ہو تا کہیں دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔اس صورتحال میں اقتدار کی شو قین اتحادی حکومت کوذہن نشین رکھنا ہوگا کہ اس بار اقتدار کسی بھی طور پر اُن کیلئے کوئی پھولوں کا بسترثابت نہیں ہوگا،
ایک طرف سیا سی بحران ہے تو دوسری جانب معاشی بحران بے قابو ہورہا ہے،اس بدترین سیاسی و معاشی مشکلات کے بھنور سے نکلنے کیلئے گھِسے پھِٹے وعدے اور روایتی بیانات اور اعلانات ہر گز نہیں چلیں گے، بلکہ ایک واضح، دو ٹوک اور قابل عمل موثر معاشی پلان دینا ہوگا ،اس میں سرِفہرست جہاں دھاندلی کی تحقیقات کرنا ہو گی ،وہیں معاشی طور پر ہر طرح کے سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی لاناہوگی، یہ ذاتی ، جماعتی اور سیاسی مفاد کی خاطر سرکاری خزانے کا منہ کھولنے کا کلچر ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا بہترین وقت ہے ،اس بارغیر ضروری اور من پسند بھرتیوں کی ماضی کی روش ختم کئے بغیر ملک کی خدمت کرنے کا دعویٰ کھوکھلا اور بے معنی ہی ثابت ہوگا۔
اس وقت ملک جن مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ایوان کے دونوں جانب کے ارکان زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، ایک ایسے عالم میں جب کہ ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے
، آئی ایم ایف کی شرائط بعض ٹیکسوں میں اضافے اور معاشی ڈھانچے میں اصلاحات کا تقاضا کررہی ہیں اور ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کا سنگین چیلنج درپیش ہے، پارلیمانی نظام کی ضرورتوں کو بھی سختی سے ملحوظ رکھا جانا چاہیے،یہ جلسے، جلوس، احتجاجی دھرنے جمہوری نظام کا ہی حصہ ہیں، مگر ہمارا سسٹم اتنے دھچکوں سے دوچار ہوچکا ہے کہ اس کے استحکام کے حوالے سے مزید محتاط رہنا پڑے گا،سیاسی مسائل سڑکوں پرحل کرنے کی بجائے پارلیمانی ایوانوں میں مکالمے کے ذریعے حل ہونے چاہئیں، اس مقصد کے لئے سب کو اپنے اپنے رویوں میں لچک لاناہوگی، تاکہ یہ نظام چلتا رہے ،اس نظام کو ہی خطرے سے دوچار نہیں کرنا ہے، بصورت دیگر سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور سارے ہی خالی ہاٹھ ملتے رہ جائیں گے۔