ریاست ہے تو سیاست ہے!
ملک میں نئی حکومت آگئی ،مگر اقتدار میں آنے والے وہی پرانے آزمائے لوگ ہیں ، یہ آزمائے لوگ عوام نہیں لائے ہیں ، اس کے باوجود عوام کو مجبور کیا جارہا ہے کہ انہیں مانا جائے ، انہیں قبول کیا جائے ، اگر عوام مز احمت کرتے ہیں تو عوام کو ڈرایا جاتا ہے ،ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے ، ریاست کے خلاف آواز اُٹھانے کا الزام لگا کرپا بند سلاسل کیا جاتا ہے ،تاکہ عوام خوف و ہراس کی فضامیں خاموش رہیں ، لیکن اس خوف و ہراس سے اب عوام نکلنے لگے ہیں اور بے خوف ہو کر بولنے بھی لگیں گے ہیں ، اس آواز خلق کو دبانا، اب اتنا آسان نہیں ہو گا۔
اس ملک میں ایسا کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے ، اس سے پہلے بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے ،لیکن اس بار انتہا ہی کی جارہی ہے ،آئین و قانون کہیں دکھائی دیے رہا ہے نہ ہی آئین و قانون کی کہیں پاسداری دکھائی دیے رہی ہے ، پار لیمان سے لے کر ادارتی سطح پر آئین وقانون کی خلاف ورزیاں سب نے ہی دیکھی ہیں ، اس کے بعد بھی بڑے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ آئین و قانون کی پاداری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ، جبکہ یہاں پراپنی ذاتیات و اَنا پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے، یہاںہر کوئی ریاست پر اپنی سیاست قربان کا دعوئے دار ہے ، لیکن اپنی سیاست کیلئے ہی ریاست قر بان کیے جارہا ہے ۔
یہ میثاق جمہوریت ،میثاق معیشت اور افہام تفہیم کی ساری باتیں محض زبانی کلامی ہی کی جاتی ہیں ، جبکہ عملی طور پر ہر کوئی اپنے حصول مفادات اور حصول اقتدار کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگانے سے گریز نہیں کررہا ہے ،یہ ریاست بچانے کا نعرا لگا کر پہلے بھی آئے تھے ، ایک بار پھر آئے ہیں ، انہوں نے پہلے کچھ کیا نہ ہی اس بار کچھ کر پائیں گے ، انہوں نے پہلے بھی عوام کو قربانی کا بکرا ہی بنایا ہے ،اس بار بھی عوام کے ہی گلے پر چھریاں چلائیں گے اور خود اپنی تجوریاں بھر یں گے ،جیسا کہ پہلے بھرتے رہے ہیں ،انہوں نے بقول شاہد خاقان عباسی آٹا پیکج میں ہی بیس عرب کا عوام کو ٹیکا لگایا تھا ، اس بار آتے ہی آٹے پیکیج میں اُس سے بھی بڑا ٹیکا لگانے کے موڈ میں دکھائی دیے رہے ہیں ۔
عوام کا بڑھتی مہنگائی اور اضافی بلوں سے جینا حرام ہے اور اہل سیاست کو اقتدار کی بندر بانٹ سے ہی فر صت نہیں ہے ، ایک طرف وزارتیں تقسیم ہورہی ہیں تو دوسری جانب بڑے بڑے عہدے لیے جارہے ہیں ، ہر ایک کواپنی پڑی ہے کہ اس لوٹ کسوٹ میں کچھ لیے بنا کہیں رہ نہ جائیں، رہی بات عوام کی تو عوام کیلئے دعوئے اور وعدے ہی کافی ہیں ،جوکہ ایک بار پھر آئے روز دہرائے جارہے ہیں ،
بڑے بڑے اعلانات کیے جارہے ہیں ،لیکن یہ سب کچھ کیسے پورا ہو گا ،جبکہ ملک کا خزانہ خالی ہے اوریہ خزانہ کبھی قر ض لے کر عوام کا خون چوس کر بھی نہیں بھر نا ہے ،یہ خزانہ کل بھی خالی تھا اور شاید آئندہ بھی خالی ہی رہے گا ،کیو نکہ ایک بار پھر دودھ کی رکھوالی پر آزمائے بھوکے بلے بٹھا دیے گئے ہیں ۔
یہ عوام کی بے بسی کی انتہا ہے کہ عوام کے ہی مسترد کردہ لوگوں کو ان پر مسلط کیا جارہا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں پارہے ہیں ، اگر آواز اُٹھاتے ہیں تو نومئی کیس میں دھر لیاجاتا ہے ، نو مئی کے واقعہ کی بنیاد پر پر زیر عتاب کی حکمت عملی نہ کل درست تھی نہ ہی آئندہ کے لئے ٹھیک رہے گی، اس ملک میں کون مقبول اور کون غیر مقبول ہے ، یہ بات سب کے ہی سامنے آچکی ہے ، اسے تسلیم کیا جانا ہی وقت کی پکار ہے اوریہ ہی جمہوری و سیاسی عمل کے استحکام کا واضح راستہ ہے، اس سے جب تک دور بھاگتے رہیں گے ، ادھر اُدھر بھٹکتے ہی رہیں گے ، اس لیے حقائق کی آگاہی کیلئے
جہاں عدالتی کمیشن کا قیام بہت ضروری ہے، وہیںتحریک انصاف قیادت اور فیصلہ سازوں کو بھی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا انتہائی ضروری ہے۔دنیا بھر میںجمہوی و سیاسی عمل ہمیشہ سے ہی مفاہمت وشراکت واداری کا متقاضی رہاہے، اس میں حالات و واقعات کے جبر کو سامنے رکھ کر ہی حکمت عملی ترتیب دینا ہوتی ہے ، اس میںمستقل محاذ آرائی جمہوری سیاست کیلئے سود مند ہے نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے حق میں مفید ہو سکتی ہے، سیاسی ماحول کی بہتری کے لئے سب کو ہی مشترکہ کوششیں کرنا ہوگی ،
لیکن اس میں پہل حزب اقتدار کو ہی کر نی چاہئے ، اگر شہباز حکومت واقعی سیاسی استحکام کی خواہشمند ہے اور وہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لئے سنجیدہ ہے تو پھر انہیں اپنی جماعتی حدود سے بالاتر ہوکر سیاسی مفاہمت کے لئے جرائتمندانہ اقدامات کرنے ہوں گے، انہیں میثاق مفاہمت کو کوئی عملی شکل بھی دینا ہو گی،یہ ہی وقت نہ صرف ریاست کو سیاست پر ترجیح دینے کا ہے ،بلکہ اپنی کہی گئی باتوں کی صداقت کو بھی ثابت کرنے کا ہے ، یہ ریاست ہے تو سب کی سیاست ہے، اگر ریاست نہیں تو کسی کی سیاست بھی نہیں رہے گی۔