مذہب کو بلیک میلنگ کا ذریعہ نہ بنائیں !
اہل پاکستان کے ذہن سے نوں مئی کا افسوس ناک واقعہ نکلا نہیں تھا کہ گزشتہ دنوں زندہ دلان لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کردیا ہے،اس واقعے کی تمام تفصیلات ہر زبان زدِ عام ہیںکہ کیسے عربی رسم الخط پرنٹ لباس پہنے خاتون کو کچھ لوگ دھمکانے لگے کہ یہ قرآنی آیات کا لباس پہنا توہین رسالت ہے، ایک بڑے شہر کے بڑے بازار میں لوگ حقایق جانے بغیر ہی ایک عورت کو نہ صرف دھمکاتے رہے ،بلکہ اس کے خلاف ایک بڑا ہجوم اکھٹاہو گیا ، جو کہ اس کی جان کے درپے تھا اور ایک ہی مطالبہ کررہا تھا کہ توہین قران کی سزا سر تن سے جدا ہے۔
اللہ تعالی بھلا کرے ان دکانداروں کا کہ جنہوں نے خاتون کو اپنی دکان میں نہ صرف پناہ دی ،بلکہ بپھرے ہوئے ہجوم کو بھی باورکرانے کی کوشش کرتے رہے کہ لباس پر عربی رسم الخط کے حروف تو پرنٹ ہوئے ہیں ،لیکن ان کا قرآنی آیات سے کوئی تعلق نہیں ہے ، تاہم اس وقت تک خاتون بپھرے ہوئے ہجوم کے خوف سے تھر تھر کانپتی ہی رہی کہ جب تک ایس پی شہربانو نقوی موقع واردات پر پہنچ کر مشتعل ہجوم سے بچا کر نہیں لے گئی ،
اس خوف زدہ خاتون نے پو لیس کی تحویل میںد دوٹوک الفاظ میں توہین مذہب کے الزام کی تردید کی اوربرملا کہا کہ اس کا تعلق ایک دینی سوچ والے خاندان سے ہے اور وہ کسی طرح بھی توہین اسلام اور قرآن کا سوچ بھی نہیں سکتی ہے۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک مسلم ملک میں ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان سے غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے ، یہ اکیسویں صدی کے پاکستان کی ایسی تصویرہے کہ جہاں مذہبی تعصّب اتنی حد تک بڑھ چکا ہے کہ کبھی سیالکوٹ میں سری لنکن انجینئر کو زندہ جلا دیا جاتا ہے
تو کبھی گرجا گھروں اور مسجدوں پر خود کش حملے کئے جاتے ہیں اور کبھی توہینِ رسالت کے جھوٹے الزام میں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے،حد تو یہ ہے کہ عربی رسم الخط کا لباس پہنے والی خاتون کو بھی نہیں چھوڑا جارہا ہے،اگر ان توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے والوں پر جھوٹ یا کذب بیانی کے حوالے سے مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تواسے بھی توہینِ مذہب قرار دیکر احتجاج شروع کر دیا جاتا ہے، مذہبی سیاسی جماعتوں کے گروہ تعلیمی اداروں میں دندناتے پھرتے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے جھوٹے الزامات کے تحت خود ہی عدالت بن کر سزا سناتے ہیں اور اس پر خود ہی عمل درآمد بھی کر دیتے ہیں، جیسا کہ کے پی میں مشال خان کو ایک ایسے ہی ہجوم نے بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا۔
کیا دنیا کا کوئی ضابطہ ء اخلاق یا کوئی مذہب ،اس کی اجازت دیتا ہے ، جبکہ اسلام کا تومطلب ہی سلامتی اور امن ہے ، اس قسم کی یکطرفہ اور ظالمانہ کاروائیوں کی دین اسلام بالکل ا جازت نہیںدیتا ہے ، یہ دین اسلام کے نام پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور توہین ِ رسالت کی سزا ،’’سر تن سے جدا‘‘ جیسے نعروں کی آڑ میں بیگناہوں کا خون بہانے کا خوفناک رجحان،ہمیں جس لاقانونیت اور خانہ جنگی کی طرف لے جا رہا ہے،
اس کابروقت تدارک انتہائی ضروری ہے ،لیکن کیا اس کا کوئی تدارک ہو پائے گا؟ہم پہلے ہی ہر لحاظ سے تباہ ہو چکے ہیں، اگر اس مذہبی انتہا پسندی اور منافرت کو بروقت روکا نہ گیا تو ہم کسی بڑے سانحے کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرنے والے گروہ غزہ میں بیگناہ فلسطینی بچوں کے قتلِ عام پر تو غیض و غضب میں آتے ہیں نہ ہی اُن کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، فلسطینیوں کی حمایت میں تو یورپ کے غیر مسلم مظاہرے کر رہے ہیںاور مسلمان خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،
یہ کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے کہ ایک حاضر سروس امریکی فوجی نے واشنگٹن میں اسرئیلی سفارت خانے کے باہر فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف خود سوزی کر لی ہے،لیکن ہمارے مسلمانوں کی بے حسی کی انتہا ہے کہ انہیں کشمیر ی مسلمانوں پر ظلم و ستم دکھائی دیے رہے ہیں نہ ہی ان کا فلسطینیوں کی نسل کشی پر جذ بہ جہاد بیدار ہورہا ہے ،ہمارے مذہبی انتہا پسندوں کے نشانے پر توصرف اپنے ہی لوگ رہے ہیں اور تو اور مسلمان ریاستیںبھی آپس میں ہی دست وگریباں ہیں،طالبان کی اسلامی حکومت پاکستان کے خلاف نبردآزما ہے اور یہ ہی حال ایران ،سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ریاستوں کا ہے کہ ایک دوسرے سے ہی دست گریباں ہیں،جبکہ اسلام دشمن انہیں روندے چلا جارہا ہے۔
اُمت مسلمہ کوجہاں اپنا محاسبہ کر نا ہوگا وہیں اپنے روئیے میں بھی تبد یلی لا نا ہو گی ، دین اسلام تو انسانوں کو انصاف ، ہمدردی اور بھائی چارے کی تربیت دیتا ہے، لیکن دنیا کے تمام مذاہب میں فرقوں کی تشکیل کے بعد ہر گروہ اپنے اپنے فرقے کی تشریح الگ الگ کر رہاہے ،اس کی وجہ سے ہی ایک ہی مذہب میں مختلف فرقے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن رہے ہیں، یوں مذہب صرف ایک جذباتی ہتھیار بن کر رہ جاتا ہے، اس کو اہلِ اقتدار اپنے اقتدار کو طول بخشنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں،اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے مذہب کا تڑکاضرور لگاتے ہیں ، یہ جانتے ہیں کہ عوام ساری ناقص کا کردگی بھول کر مذہب نے نام پر جذباتی ہو جاتے ہیں، اس لیے ہی مذہب کو بلیک مینگ کیلئے زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے ۔
یہ مذہب کا استعمال پا کستان میں ہی نہیں ،دنیا بھر میں ہو تا رہا ہے، انقالاب ِ فرانس سے پہلے پوری عیسائی دنیا بھی اسی مذہبی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر آس میں دست وگریباں رہی ہے، انہوں نے تو خود کو مذہبی رواداری یعنی سیکولرازم سے جوڑ کر اپنے معاشروں کو اعتدال پسند معاشروں میں تبدیل کر لیا ہے ،لیکن ہم ابھی تک سیکولرازم کو ایک ہوّا بنائے ہوئے ہیں، پاکستان کی تشکیل کے بارے میں مذہبی ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،اس میں بڑی حدتک سچائی ہے ،لیکن 71میں بنگلہ دیش کے قیام نے اسے غلط ثابت کر دیا ہے،
بنگلہ دیش نے سیکولرازم اختیار کرکے ترقی کی جو نئی منازل طے کی ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں، لیکن ہم ابھی تک پولیو کے قطرے پلانے والوں پر تشدّد کر رہے ہیںاور عربی رسم الخط والا لباس پہنے پرایک خاتون کوتوہین مذہب کا نشانہ بنارہے ہیں، خدارا ہو ش میں آئیں اور مذہب کو بلیک میلنگ کا ذریعہ نہ بنائیں، یہ مذہب خدا اور انسان کا معاملہ ہے، اسے گلیوں اور بازاروں میں ایسے نہ اچھالا جائے، ورنہ ہم کسی ایسے بہت بڑے حادثے سے دوچار ہوجائیں گے کہ جس کی تلافی بھی نہیں ہو پائے گی۔