اس بار عوام ہی سب پر بھاری ہے ! 105

قرض کی نہیں، سر مایہ کاری کی بات!

قرض کی نہیں، سر مایہ کاری کی بات!

اس ملک کے عوام کو درپیش مشکلات ہرزبان زدِعام ہیں ،عوام ان کا مداوا چاہتے ہیں، لیکن اس کا مدوا تو درکنار ،اس کا موجب بنے والوں پرکوئی ہاتھ نہیں ڈال رہا ہے، مٹھی بھر اشرافیہ نوئے فیصد وسائل پر قابض ہے، جبکہ غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اس کے باوجودعالمی ادارے اُن خوردہ فروشوں پر ہی ٹیکس لگانے کا تقاضا کررہے ہیں ،جوکہ پہلے ہی مشکل سے اپنی روزی کما رہے ہیں،

جبکہ ہول سیلرز کی منافع خوری سے چشم پوشی کی جارہی ہے، ہر حکومت اشرافیہ کی سبسڈی ختم کرنے اور ٹیکس کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے عزم کا اعادہ ضرور کر تی ہے ،مگر اس کے برعکس ہی عمل در آمد ہو تا ہے ، ا ملک میں کل بھی غریب کو ہی قر بانی کا بکرا بناجاتا رہا ہے ، آج بھی عام لو گوں پر ہی سارا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔
عوام کیسے آزمائے لوگوں سے بہتری کی توقعات رکھ سکتے ہیں اور کیسے اِن سے کو ئی اچھی اُمید وابستہ کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ کچھ نیا کر یں گے ، یہ کل جو باتیں کرتے رہے ہیں ،وہی آج بھی دہرائے جارہے ہیں ، وزیراعظم شہباز شریف کا وفاقی کا بینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کا کام کاروبار نہیں ،نجی شعبے کی معانت کرے گی ،قرض کی نہیں، سرمایہ کاری کی بات کی جائے گی،

مٹھی بھر اشرافیہ ۰۹ فیصد عوام کے وسائل پر قابض ہے، ان وسائل کو اشرافیہ کی گرفت سے نکلا جائے گا، ان کی تقریر ایک انقلابی اپوزیشن لیڈر کی تقریر لگ رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ایک بار پھر وہ کہنے والے ہیں کہ اگر اس مرتبہ عوام کو ترقی یافتہ ملک نہ بنا سکا تو میرا نام بدل دینا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کہا،بلکہ وہ بات کہہ دی ،جوکہ عرصے سے عوام کی زبانوں پر ہے ، معیشت بحال کرو، اب نہیں یا کبھی نہیں تک بات پہنچ چکی ہے۔
یہ سب باتیں کر تے ہوئے میاں شہباز بھول رہے ہیں کہ حکمران ٹولے کے لیے اب نہیں یا کبھی نہیں کا مرحلہ تو کئی برس قبل گزر چکا ہے، لیکن اسے اشرافیہ ہی بچارہی ہے اور دوبارہ لا رہی ہے، اس ملک کی مقتدرہ بھی اشرافیہ کا ہی حصہ ہے کہ جس کی سبسڈی ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے، انہوں نے جتنی باتیں کی ہیں ،

وہ صرف باتیں ہیں اور اسمبلی کے اجلاس تک ہی محدود ہیں ،کیونکہ ان کے نئے وزیر خزانہ بھی کاروباری ہیں اور انہوں نے وزیراعظم کے اعلان کی نفی کردی ہے کہ قرض کی نہیں سرمایہ کاری کی بات کروں گا، وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ باتیں نہیں، کام کروں گا[اور آئی ایم ایف پروگرام میں جا ناانتہائی ضروری ہے، اس کے بعد قرض نہیں ،سر مایہ کاری کی باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ نئے وزیر خزانہ اورنگزیب خان نے جو کچھ بھی فرمایا ہے، حکومت وہی کچھ کرے گی

اور وزیراعظم محض عوام کو بہلانے کیلئے تقا ریر ہی کرتے رہیں گے، جہاں تک اشرافیہ کی سبسڈی کی بات ہے تو اسے کسی سبسڈی کی ضرورت ہی نہیں ہے ، حکومت میں شامل جاگیردار طبقے نے پہلے ہی قانون ساز ی کرکے اپنا حق قرار دے دیا ہوا ہے، وہ جو کچھ بھی لے رہے ہیں، اسے اپنا قانونی حق قرار دیتے ہیں ، سبسڈی تو غریب عوام کو ملنی چاہیے،لیکن نہیں مل رہی ہے ، بلکہ مزید روکی جارہی ہے ، آئی ایم ایف نے کوئی سبسڈی دینے سے سختی سے روک دیا ہے ، اب عام عوام قر ض در قرض کا بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور انہیں کوئی رلیف بھی نہیں دیا جائے گا۔یہ آزمائے لوگ کب تک عوام کو اپنے آزمائے فارمولوں سے بہلاتے اور بہکاتے رہیں گے ، عوام اب کسی بہکائوئے اور بہلائوئے میں آنے والے نہیں ہیں ، عوام نمائشی اعلانات میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں نہ ہی کسی بیانیہ پر اعتماد کرتے ہیں ،

عوام جانتے ہیں کہ بارہ ارب کے رمضان پیکیج پر بھی اپنے ہی لوگوں کو نواز کر عام لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ، اگر اس حکومت کو واقعی عام لوگوں کا خیال ہو تا تو اس بارہ ارب سے روز گار دیا جاتا، ناکہ لائینوں میں لگا کر بھاری بنایا جارہا ہے ،یہ آزمائے بھکاری ذہنیت کے لوگ عوام کو بھی بھکاری بنانے پر ہی تلے ہوئے ہیں ،یہ قر ض پر قرض لے کر اپنے اقتدار کو دوام دیے رہے اور عوام کو بھکاری سمجھ کر اپنی تصویر والے آٹے کے تھیلے دیے رہے ہیں ، اس کے بعد کہتے ہیں کہ اشرافیہ سے عوام کی جان چھڑائیں گے ،جبکہ اس اشرافیہ کوہی ساڑھے سترہ ارب ڈالر سالانہ کی بنیادوں پر سرکاری خزانے سے دیے جارہے ہیں اور اس کے بدلے میں عام آدمی کا خون نچوڑے جارہے ہیں تو معیشت کیسے سنبھلے گی اور کیسے قرض کی نہیں، سر مایہ کاری کی باتیں پوری ہو پائیں گی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں