انسداد دہشت گردی کاعزم !
ہمارے سکیورٹی اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کامیاب اپریشنز کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور کافی حد تک ان کا صفایا بھی کردیاہے، لیکن ان کی باقیات اور سہولت کار اب بھی موجود ہیں ،جو کہ اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا رہے ہیں، گزشتہ روزشمالی وزیر ستان کے علاقے میر علی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت پاک فوج کے سات نوجوانوں کی شہادت ایک بڑا قومی نْقصان ہے ، حکومتی اعلی سطح سے لے کر عام آدمی تک ان شہادتوں پر گہرے دکھ کا اظہار کیا جارہاہے
، آرمی چیف جنرل سید عاصر منیر نے بھی دہشت گردی کی لعنت کے مکمل خاتمہ تک لڑنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہدائے پاکستان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی‘ انشاء للہ پاکستان میں مکمل امن واپس آکر ہی رہے گا۔بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف عسکری قیادت کے عزم کو پوری قوم کی ہی تائید وطاقت اور حمایت حاصل رہی ہے،قوم جانتی ہے کہ اس کی حمایت کے بغیر دہشت گردی کے ناسور کاسد باب ممکن نہیں ہے،
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی دہشت گردی کی نئی لہر اْٹھتی ہے، پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوجاتی ہے ،اس دہشت گردی کے واقعہ کے بعد بھی قوم پہلے کی طرح ہی پْرعزم ہے کہ ہم دہشت گردوں کو پنپنے نہیں دیں گے اور اْن کی بزدلانہ کارروائیاں کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے لیے زیرو ٹالرنس کے ساتھ عزم کو مضبوط کرتی ہیں کہ اِنسانیت کے دشمنوں کا جلد قلع قمع ناگزیر ہے ۔
اس دہشت گردی کے ہو نے والے حالیہ واقعات سے ظاہر ہورہا ہے کہ دہشت گرد مذموم کارروائیوں کے ذریعے عوام میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں،لیکن انہیں سکیورٹی فورسز کی جوابی منظم کارروائیوں کی وجہ سے پے درپے ناکامیوں کا سامنا ہے، مگر دہشت گرد ان کامیابیوں کو پلٹنا چاہتے ہیں ،اس لیے ہی ایک بار پھر ریاستی رٹ چیلنج کرنے کا ماحول بنانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ کبھی موقع ملنے پر عام لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں
تو کبھی سیکورٹی فورسز پر حملے کررہے ہیں،مگر انہیں اپنے مقاصد کا حصول دور تک ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ،عسکری قیادت پرعزم ہے کہ کسی مسلح جتھے کو پاکستان میں کسی قسم کی گنجائش دی جائے گی نہ ہیدہشر گردوں سے کوئی رعایت دی جائے گی ،ریاست کی رٹ کو ہر صورت قائم رکھاجائے گا۔
اس عزم کے خلاف ہی دہشت گرد سر گرم عمل ہیں اور ریاست کی رٹ ختم کر نے کے درپے ہیں ، اس میں ملک دشمن قوتیں ان کا مکمل ساتھ دیے رہی ہیں، لیکن ان کے پیچھے مشرق ہو یا مغرب اِن کو منطقی انجام تک پہنچانے اور اِس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے سیکورٹی فورسز پْرعزم ہیں،پاک فوج نے دہشت گردی کی طویل ترین جنگ میں کامیابی بڑی محنت اور قربانیوں سے حاصل کی ہے، لہٰذا قطعی ممکن نہیں ہے کہ شہدا کی قربانیاں رائیگاںجانے دی جائیں، سربراہ پاک فوج نے بھی عزم مصمم کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے اور دہشت گروں کی پشت پناہی کر نے والوں کو متنبہ کیا ہے کہ دہشت گردی پرکوئی کمپرو مائز نہیں کیا جائے گا۔
پا کستان اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کے خلاف دہشت گردی میں بھارت کی پشت پناہی میںافغانستان کی سرزمین استعمال کی جاتی رہی ہے اور ہمیشہ کی طرح اب بھی افغان سرزمین کو ہی موزوں سمجھا جا رہا ہے، افغان حکام کے لیے متذکرہ صورتحال لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوںمیں ملوث دہشت گرد افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں ہیں، دونوں ملکوںکے درمیان تعلقات کو ایسے واقعات نقصان پہنچاتے ہیں،
لہٰذا افغان حکام کو دہشت گردعناصر سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور دہشت گردوں کے لیے افغانستان کی سرزمین تنگ کردینی چاہیے، لیکن ایسا کچھ ہو نہیں رہا ہے ، کیو نکہ افغان طالبان حکومت کے اندر اُن کیلئے نرم گو شہ پایا جاتا ہے ،اس لیے ہی ساری یقین دہانیوں کے باوجود سر حد پار دہشت گرودں کی مکین گاہوں کا خاتمہ نہیں ہو پارہا ہے۔
اس خطے میں قیام امن کیلئے دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے ،اس کا ادراک جہاں افغان حکومت کو کر نا چاہئے ،وہاں ہماری سیاسی قیادت کو بھی دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر متفق ہونا چاہیے
جو کہ نیشنل ایکشن پلان کی اصل روح پر عمل درآمد کا تقاضا کرتی رہی ہیں، دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے عسکر قیادت تو پرُ عزم رہی ہے ،لیکن اب سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے اس عزم کا حصہ بنناہو گا، اس حوالے سے مزیدکوئی بھی مصلحت ملک و قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔