آئی ایم ایف کاقرض اور حکومت کی ذمہ داری !
موجودہ حکومت عوام پر سابقہ نگراں اور اس سے پیوستہ پی ڈی ایم حکومت سے بھی بھاری پڑنے والی ہے ، کیو نکہ قر ض پر قرض لینے کی آڑ میں آئی ایم ایف جوجال پھیلا رہا ہے ،اس سے عوا م کی بد حالی کے واضح اشارے سامنے آرہے ہیں ،ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی یقین دہانیاں کرارہی ہے تو دوسری جانب آنے والے بجٹ میں عوام ریلیف ملنے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں،
لیکن آئی ایم ایف کو جس طرح یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں، حکومت عوام کی توقعات پرکیسے پورا اُتر سکتی ہے، ایک عرصہ سے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اگر اس بجٹ میں ان کو ریلیف نہ ملا تو شدید رد عمل سامنے آسکتا ہے۔
اس ملک کے عوام کی کسے پرواہ ہے اور کون عوام کا احساس کررہا ہے ، یہاں ہر آنے والا اپنے اقتدار کو ہی دوام دینے میں لگا ہوا ہے ، یہ وہی آزمائے لوگ ہیں جو کہ بڑے بڑے دعوئے کرتے رہے ہیں کہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے آئے ہیں ، کشکول توڑنے آئے ہیں ، قر ض نہیں سر مایہ کاری لانے آئے ہیں ، لیکن آتے ہی قر ض کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے نہ صرف سجدہ ریز ہو گئے ہیں ،بلکہ اُن کی ساری ہی شرائط پر من وعن عمل کرنے کی یقین دہانیاں بھی کروائے جا رہے ہیں ،کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اس کا بوجھ اُن کے بجائے عوام نے ہی اُٹھانا ہے اور خاموشی سے بر داشت بھی کرنا ہے۔
عوام کو پہلے ہی مہنگائی نے بد حال کررکھا ہے ، اُوپر سے آئی ایم ایف کی شرائط مزید براحال کر دیں گی ،لیکن عوام کی پریشانی سے زیادہ حکومت کو آئی ایم ایف سے کامیاب مزاکرات کی خوشی ہورہی ہے ، آئی ایم ایف کیلئے بھی پاکستانی حکومت سے اپنے مطالبات منوانا کوئی مشکل نہیں رہا ہے ، انہیں جو کچھ کہا جارہا ہے ،اس پر من وعن سر تسلیم خم کیا جارہا ہے تو پھرقر ض ملنے میں روکاوٹ کیسے ہو سکتی ہے ،
قرض لے کر قوم کو گر وی رکھنے والوں نے قومی حمیت کا جنازہ تو برسوں پہلے ہی نکال دیا تھا ، معیشت کی بہتری کی آڑ میں رہی سہی کسر اب پوری کی جارہی ہے ،اس کے بعد بھی کہا جارہا ہے کہ ہم ہی ملک و عوام کو اغیار کی غلامی سے نجات دلائیں گے۔اس ملک کے عوام کو اغیار کی غلامی سے نکالنے کے زبانی کلامی نعرے ہی لگائے جاتے ہیں ،قوم کو حقیقی آزادادی دلانے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے ، ہر کوئی اقتدار میں آکر قرض پر قر ض لے کر قوم کو غلامی کی دلدل میں ہی دھکیلئے جارہا ہے
، یہاںکوئی خود انحصاری کی بات کرتا ہے نہ ہی کسی کے پاس کوئی خود انحصاری کا نیافار مولاہے ، ان کے پاس ایک ہی آسان راستہ ہے کہ قرض لے کر عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار کی جائے ، عوام پر جس طرح ٹیکس در ٹیکس لگایا جارہا ہے ، اس سے مستقبل قریب میں کسی بڑی عوامی تحریک کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا ، کیو نکہ جب بنیادی انسانی ضروریات ہی عوام کی دسترس سے باہر ہو جائیں گی تو لا محلہ کم آمدنی والے افراد میں بے چینی کا پیدا ہو گی اور اس کا اظہار سڑکوں ،چورہاہوں پر ہوتا دکھائی دیے گا۔
عوام کو زیادہ دیر تک طاقت کے زور پر روکا جاسکتا ہے نہ ہی خوف و ہراساں کیا جاسکتا ہے ،عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے ، اس سے پہلے کہ عوام بے خوف سڑکوں پر نکل آئیں ،حکو مت کو اپنا محاسبہ خود ہی کر لینا چاہئے ، اگر حکو مت قرض لیتی ہے تو ٹیکس بھی لگانے پڑیں گے ،لیکن اس کے ساتھ سر کاری و پرائیویٹ ملازمیں کی آمدنی میں اسی مناسبت سے اضافہ بھی ہو ناچاہئے
،تاکہ عام لوگوں میں قوت خرید کی ساکھ برقرار رہے اور ملک میں افراتفری کا بازار گرم نہ ہو پائے ،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے ، حکومت کو عوام سے زیادہ اپنی فکر کھائے جارہی ہے کہ قرض بغیر چل نہیں پائے گی ،حکومت قرض ضرور لے ،مگر قرض دینے والوں کے مطالبات ماننے میں اعتدال کا مظاہرہ کرے ، اگر خدانخوستہ ملک کسی مشکل صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو جن پر تکیہ کیا جارہا ہے ،وہ تو اپنا دامن سمیٹ کر سائیڈ لائین ہو جائیں گے اور ساری مشکلات سے قوم وقومی اداروں کو ہی نبر آما ہونا پڑے گا۔
ملک کے حالات دن بدن بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوتے جارہے ہیں،یہ وقت بھی کوتاہی میں گزرگیا تو پھر نہیں آئے گا، اس لیے بر وقت سنبھلنے کی ضرورت ہے ، قر ض سے خو انحصاری کی جانب منتقل ہو نے کی ضرورت ہے ،ملک قرضوں سے کبھی ترقی کر سکتا ہے نہ ہی عوام خوشحال ہو سکتے ہیں،قرض ملک کی معیشت ہی نہیں، خود مختاری کو بھی متاثر کرتا ہے اور عوام کی سوچ بھی بھکاری و غلامانہ بناتاہے
،حکومت کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کے لئے عالمی اداروں سے نئے سرے سے بات کرنے سمیت دیگر دستیاب تمام طریقے بھی آزمائے جانے چاہئیں، قر ض پر قرض لینے کے بجائے خود انحصاری کے نئے فار مولے آزمائے جانے چاہئے ،کیو نکہ قرض پاکستان کا خون ہی نچوڑ رہا ہے ، اس عفریت کے خاتمے سے ہی ملک وعوام میں خو شحالی لائی جاسکتی ہے۔