134

بزدل دشمن کا وار۔۔!

بزدل دشمن کا وار۔۔!

تحریر: عرفان مصطفی صحرائی

پاکستان بنے پچھتر برس گزر چکے، مگر افسوس ہم ایک قوم نہیں بن سکے ! چوں کہ ہم اپنے قومی تصورات کی بنیاد ، معاشی،معاشرتی اور ثقافتی انداز فکر کو فراموش کر کے صرف اور صرف مفادات کی دوڑ میں لگ گئے ہیں۔ ہر کسی نے انتشار کا فارمولا اپنایا،عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورت حال خراب ترہو چکی ہے، ہر شعبہ ہائے زندگی میں نا انصافی وطیرہ بن چکا ہے۔ایسے حالات میں من حیث القوم متحد ہو کر سوچنا ہو گا،مگر کیسے؟بیماری کی تشخیص کے بعد دوا مؤثر ہوتی ہے، پاکستان اندرونی و بیرونی دشمنوں کے شکنجے میں ہے،

لیکن ہم اقتدار کی جنگ سے فارغ نہیں ہورہے،ملک ڈوب رہا ہے ،عوام غربت ،افلاس اور نا انصافی کے ناسور سے ختم ہو رہی ہے،مگر ہمیں تو حکمرانی چاہیے،لیڈران ایسے میسر ہیں ،جو عوام کو متحد کی بجائے انتشار کی جانب دکھیلتے ہیں،انہیں عوامی مسائل سے غرض نہیں ،بلکہ ایسے ایجنڈے کے لئے استعمال کرنا ہے ،جس سے ملک ترقی نہیں،تنزلی کی جانب گامزن ہواور وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔

قوموں کو مسائل آتے ہیں،ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے،حل ڈھونڈا جاتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنے ملک و قوم سے مخلص ہوں۔آج ملک جس نہج پر پہنچا ہے، اس گناہ میں ہم سب کسی نہ کسی طرح شریک ہیں،اس بات کا تدارک کسی کو دور دور تک نہیں۔دشمن پاکستان کی اقتصادی ترقی کے پروجیکٹس کو نشانہ بنا رہا ہے،دہشت گردی سے داخلی سلامتی کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔پاک فوج نے بے شمار قربانیاں دے کر ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کیا تھا ،مگر ہمارے نام نہاد لیڈران پاک فوج کے خلاف ہی پروپیگنڈا مہم زوروں پر شروع کر دیتے ہیں، جب جب پاکستان ترقی کی جانب قدم بڑھاتا ہے

،اندرونی و بیرونی دشمن حرکت میں آ جاتے ہیں،اس کی مثال خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں چینی انجینیئرز پر دہشت گردی کا حملہ ہے،جس میں پانچ چینی انجینیئرز نشانہ بنے، جو کہ سی پیک منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔دہشت گردوں کو چینی انجینیئرز سے کوئی دشمنی نہیں،بلکہ ان کا مقصد پاکستان کو ترقی کے راستے سے ہٹانااوراستحکام کی منزل سے دور کرنا ہے،بلوچستان میں متعدد واقعات رونما ہوئے،

قبائلی پٹی کے اضلاع سے بھی ایسے واقعات کی خبریں آ چکی ہیں۔کیا یہ دہشت گردی کے واقعات اندرونی دشمنوں کی مدد کے بغیر ممکن ہو سکتے ہیں؟یہی ہمارے ملک کی اصل بیماری ہے،جس کا علاج سختی سے کرنا ہو گا،اس میں کسی مصلحت،ہمدردی یا مفاد سے بالاتر ہو کر ایکشن کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
چین پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے ،جس کے تحت مختلف منصوبوں کے ذریعے سڑکیں ، ڈیم ، پائب لائن اور بندرگاہ پر کام جاری ہے،سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے ، جس کی بنیاد سنہ 2013 میں مسلم لیگ (ن)کے دور میں رکھی گئی تھی،’’ون پلس فور‘‘ کہے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے

اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں، جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہے ۔پاکستان کی ترقی کا یہ سفر دشمنوں کو منظور نہیں ،یہی وجہ تھی کہ جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی )نے 2021 میں داسو منصوبے کے تحت ڈیم کی تعمیر کا کام جاری تھا،وہاں چینی انجینیئرز کی بس پر حملہ کیا اور یہ اسی مقام پر دوسرا حملہ تھا ۔گو کہ حالیہ چینی شہریوں کے جانی نقصان کی ہر سطح پر مذمت کی گئی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذمت کافی نہیں ،یہ ملک و قوم کے لئے انتہائی شرمندگی کا واقع ہے،کیوں کہ جو لوگ ہمارے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے آئے تھے،ہم ان کی جان نہیں بچا سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے محرکات سے چین باخوبی آگاہ ہے کہ دشمن پاک چین بھائی چارے اور اعتماد کو برداشت نہیں کر پا رہے،

مگر ہمیں عناد اور تعصب کی قابل مذمت سوچ رکھنے والوں کو سختی سے سبق سکھانا ہو گا ،اس کے لئے ہر پاکستانی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،پاک فوج نے اس عزم کا اظہار کر دیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا،مگر کیا ہم اپنی فوج کی خدمات ،عزم اور حوصلے کی قدر اس طرح سے کرتے ہیں،جس طرح سے ہمیں کرنا چاہیے؟ہمیں سوچنا ہو گا کہ کہیںہم غیر دانستہ طور پر اپنی ترقی ،خوش حالی اور امن کے دشمنوں کی گھنونی سازشوں کا حصہ تو نہیں بن رہے؟

دشمن کا وار سخت ہے،مگر عوام کو متحد ہو کر اپنے پیارے ملک کا دفاع کرنا ہو گا ،اس کے لئے ہم حکمرانوں کو پسند کریں یا نہ کریں،انہیں بھرپور موقع فراہم کریں کہ وہ اپنے کام کو باخوبی کسی انتشار اور رکاوٹ کے بغیر کر سکیں ،حکمرانوں کے پاس بھی آخری موقع ہے کہ وہ شعبدہ بازی کی بجائے عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ دشمنوں کے ناپاک مقاصد سے آہنی ہاتھوں سے نبردآزما ہوں،عدم استحکام اور انتشار کی سیاست کے بجائے ،اتحاد،یقین محکم کو فروغ دیں،اس کے لئے انہیں جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے،اسی میں ان کی بقا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں