جینا بھی عذاب بن گیا
جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی
ماہِ صیام میں اشیائے خوردونوش اور فروٹ کے نرخوںمیں مسلسل اضافہ دیکھ کرلگتاہے پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیزنہیں ہے ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنراور افسروںکی فوج ظفرموج کے باوجود عوام کا کوئی پرسان ِ حال نہیںآخرانتظامیہ کسی مرض کی دواہے ۔ کوئی ہے اس سوال کا جواب ۔ کسی کے پاس؟؟؟سیاسی افراتفری، معیشت کے عدم استحکام اور خوفناک مہنگائی کے ماحول میں 13جماعتی حکومتی اتحادPDM حکومت نے نے پھر پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کااعلان کردیاہے
گذشتہ دنوں پھر بجلی کی قیمتوںمیں اضافہ کردیا گیا لوگوںکو سوئی گیس کی بل اس قدر زیادہ آئے ہیں کہ لوگوںکی چیخیں نکل گئی ہیں عورتیں جھولیاں اٹھا اٹھاکر یہ سلیب بنانے والوںکو بددعائیں دیتی پھرتی ہیں یعنی اس حکومت نے عوام کا جینا عذاب بناڈالاہے یہ ماہانہ مہنگائی کی قسط ہے لیکن خدشہ ہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورانہ ہوسکا تو پھر عوام کی شامت آجائے گی یاحکومت IMFسے قرضہ لینے کے لئے ان کے مطالبات کے سامنے ڈھیرہوجائے گی پھربجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی
اتنے ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض سمجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو،منی بجٹ یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول کہا جاتاہے کہ سب اچھا ہے عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا اب معلوم نہیں یہ کون سے عوام ہیں جن پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا پاکستان کی ہر حکومت غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے نہ جانے کتنے وعدے اور ان گنت کرتی ہے
پھر مافیا نت نئے بحران ارینج کرتے ہیں کبھی آ ٹا کبھی چینی ،کبھی آلو کبھی پیاز اور کبھی ٹماٹر نہیں ملتی اوور لوگ پھر پاگلوںکی طرح خریداری کرتے ہیں جس سے چیزیں اور مہنگی ہو جاتی ہیں ایک اور بات ہمیشہ سیاسی افراتفری کے ماحول یا کمزور حکومتوں کے دور میں قیامت خیز مہنگائی ہو جاتی ہے پھر عام آدمی اس بوجھ تلے دب کرچوں بھی نہیں کر سکتا رہی سہی کثر منی بجٹ میںٹیکسزلگاکر عوام کادھڑن تختہ کردیا جاتاہے جس پر حکومتی ارکان بڑی ڈھٹائی سے سینہ تان کر کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا اب عام آدمی کیا کرے جس کی قسمت میں ساری سسکنا، کڑھنا اور کوسنا ہی مقدر ہے حکمران ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کرکے اس تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتے ۔
حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے دورمیںہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں خود وزیر ِ اعظم نے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے یہ بات تو طے ہے کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بجلی ، اور پٹرولیم مصنو عات کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں جس سے بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آ جاتاہے یہی وجہ ہے کہ حکومت وںنے عوام کو افراط زر اور معاشی زوال کے چنگل میں پھنسا دیا ہے اشرافیہ اپنی مراعات پرکوئی کمپرو مائز نہیں کرتی عوام سے ہر وقت قربانیوںکا تقاضا کیا جاتاہے جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے
انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں مختلف حیلوں بہانوں سے عوام سے پیسے بٹورے جا تے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے
ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیں گراںفروش حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں ایک اور بات قابل غور ہے کہ جب سے حکومت نے ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے ہر مہینے مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں حکومت کی طفل تسلیاں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا
دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے
اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں وزیر خزانہ اور وزیر ِ اعظم کے دعوے اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کے سوا کچھ نہیں ہوتا حالانکہ غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں لیکن ا گرسال بھر پھر کوئی منی بجٹ نہ لایا جائے تو مسائل کے مارے لوگخوشی سے نہال ہو جائیں گے وگرنہ سارا سال عوام کی شامت آئی رہتی ہے۔