کون بے جا مداخلت کر سکتا ہے !
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کو انتظامیہ اور اسکے تحت فوج کی خفیہ ایجنسی کی عدالتی معاملات اور ججوں کو بلیک میل کرنے کی ذاتی شہادتوں کے ساتھ ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ کے حوالے سے جو سنگین الزامات لگائے ہیں، اس نے ملک بھر میں ایک کھلے راز کے فاش کئے جانے پر اک تہلکہ مچا دیا ہے، اس تہلکہ کے ہی زیر اثرعام لوگ سمجھ رہے ہیں
کہ اب عدلیہ کی حد تک مداخلت بند ہو جائے گی، لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں آرہا ہے ، عدلیہ میں براہِ راست مداخلت کچھ دنوں کے لیے رک ضرور جائے گی اور عدلیہ کو بڑی حدتک مطمئن بھی کر دیا جائے گا ،لیکن پھر کچھ ہی عرصے بعداپنی مرضی کے کچھ ججوں کے ذریعے وہی کھیل دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔
اس ملک میں اہم اداروں کی مداخلت ایک حقیقت ہے ، اس سے نظر چرانے سے حقیقت بدل جائے گی نہ ہی کسی وقتی کار گزاری سے مداخلت رُکنے والی ہے، اگر عدلیہ اپنے ادارے سمیت تمام اداروں میں کسی بھی طاقتور ادارے کی مداخلت بند کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کیس کی بنیاد پر نہایت سنجیدگی سے غور کرکے تمام فریقوں کو طب کرکے مستقبل کے لیے واضح اور دو ٹوک فیصلہ سنا دینا چاہیے ، اداروں کے معاملات میں مداخلت کو آئین کی دفعہ چارکا حصہ بنا دینا چاہیے یا پھر اس کے مساوی سزا تجویز کرنا چاہیے
کہ جو ادارہ ایسا کرے گا ،اس کے سربراہ سمیت تمام لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی، لیکن اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بہادر چھے ججوں نے خط لکھ کر گھنٹی تو فراہم کر ہی دی ہے،اس گھنٹی کو اب ایسے اداروں کے گلے میں باندھنے کا مرحلہ ہے ،جو کہ ہر کام میں بے جامداخلت کرتے ہیں۔یہ کون نہیں جانتا ہے کہ ادارے مداخلت کرتے ہیں ، ہر ادارے میں بوقت ضرورت مداخلت ہوتی ہے ،مگر اس پر کوئی بات ہی نہیں کرتا ہے ، کیو نکہ اگر بات کرتے ہیںتو زبان جلتی ہے اور اگر لکھتے ہیں تو ہاتھ کٹتے ہیں، اس بار مداخلت کا شور صرف اس لیے مچا ہوا ہے
کہ ہائی کورٹ کے چھے بہادر ججوں نے بڑی دلیری سے خط لکھ دیا ہے اور عام لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ شائد عدلیہ نے نوٹس لے لیا ہے ،اب عدالتی امور میں ایجنسیوں کی مداخلت ختم ہو جائے گی،لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، کیو نکہ عدالت عظمیٰ کا ردعمل سب کے سامنے ہے ،عدلیہ کے فل کورٹ کے اجلاس پر اجلاس کے بعداعلامیہ بھی ابتدائی ردعمل کے مقابلے میں ذرا نرم ہی نظر آیاہے کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے ،اس برداشت نہ کرنے کے اعلان سے تو کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے،
اگرعدالت عظمیٰ نے حقیقی معنوں میں نوٹس لیا ہوتا تو خود ہی کوئی ایکشن بھی لیتے ،لیکن حکومت سے کمیشن بنواکرمعاملہ وقتی طور پر ٹالا گیا ہے۔پا کستان میں اداروں کا حدود سے تجاوز کرنا کو ئی نیا معاملہ ہے نہ ہی کمیشن کے ذریعے پہلی بار ٹالا جارہا ہے ،یہ کمیشن پہلے بھی بنائے جاتے رہے ہیں اور اس بار بھی ایک کمیشن بنادیا گیا ہے ، اس کا پہلے کوئی نتیجہ نکلا ہے نہ ہی اس بار نکلنے والا ہے ، اس کے ذمے دار خود ادارے اور اس وقت کے حکمران رہے ہیں،جو کہ مل کر ایک ایسا کمیشن بناتے ہیں
کہ جس کی رپورٹ پر کبھی کوئی کاروائی ہی نہیں ہوتی ہے ، اس میں سب سے زیادہ کردار اہل سیاست کا ہی رہا ہے، جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ سیاست دان ہی نہیں رہے، بلکہ ایجنسیوں کے آلہ کار بن گئے ہیں،یہ حصول اقتدار کے لیے ایجنسیوں کی مدد حاصل کرتے ہیں اور دوسرے کی حکومت گرانے کے لیے ایجنسیوں کے در پر نہ صرف حاضری دیتے ہیں،بلکہ اُن کی خشنودی میں ایسے کمیشن بھی بناتے کہ جن کا کوئی رزلٹ ہی نہیں نکلتا ہے،اس بار جس طرح بہادرججوں نے خط لکھا ہے، اس طرح پارلیمنٹ سے بھی کبھی کبھار کوئی ایک آواز آجایا کرتی تھی کہ مداخلت قبول نہیں، لیکن اب اس کا بھی اچھی طرح انتظام کر لیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسی کوئی آواز ہی نہیں گونجے گی۔
یہ کتنی بے بسی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی کچھ کر پارہا ہے نہ ہی بے جا مدا خلت روک پارہا ہے ، اگر پارلیمان ہی ایک بار فیصلہ کر لے کہ کسی ادارے کے دوسرے کے معاملات میں بے جا مداخلت نہیں کرنے دے گی تو پھر ججوں یا دوسرے اداروں کے لوگوں کو کبھی خط لکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی،عدلیہ کو بھی اعلامیہ جاری کرنے اور کمشن بنوانے سے زیادہ اندرونی طور پر اپنی مضبوطی پر توجہ دینی ہوگی کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے کسی کی مداخلت قبول نہیں کریں گے،عدلیہ، پارلیمان یا کوئی سرکاری ادارہ صرف اس لیے ہی بے جا مداخلت قبول کرتا ہے کہ اس کے اپنے معاملات ہی درست نہیں ہوتے ہیں،اگر سارے ہی اپنے معاملات درست رکھنا شروع کردیںتوپھر کون بے جا مداخلت کر سکتا ہے !