کون بے جا مداخلت کر سکتا ہے ! 60

پاک امریکہ تعلقات کس قیمت پر۔ !

پاک امریکہ تعلقات کس قیمت پر۔ !

پا کستان کی سیاست میں آجکل امریکی صدر جو بائیڈن کے خط کا بڑا چر چا ہے،اس کا خط کا بڑی دیر سے انتظار تھا ، یہ خط بڑی دیر سے ہی سہی ،لیکن آہی گیا ہے، مسلم لیگ( ن) خوشیاں منارہی ہے اور بتارہی ہے کہ تحریک انصاف قیادت کا فون نہ اُٹھانے والوں نے انہیں خط لکھ دیا ہے ، مسلم لیگ (ن) قیادت کو اتنا خوش نہیں ہو نا چاہئے ،کیو نکہ امر یکی صدر نے خط لکھنے میں بہت دیر کر دی ہے ، صدر جوبائیڈن کے جانے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ آنے میں اب کچھ زیادہ وقت نہیںرہ گیا ہے ،جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے سے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف قیادت سے اپنے اچھے تعلقات آگے بڑھائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ امر یکہ ایک سپر پاور ہے اور اس سے اپنے تعلقات بہتر بنانا اور اچھے تعلقات آگے بڑھنا ہر حکومت کی ہی خو اہش رہی ہے ، لیکن اس کی قیمت ہر حکومت کو ہی ادا کر نا پڑی ہے، امر یکہ اپنے تعلقات میں صرف اپنے ہی مفادات دیکھتا ہے ور دوسروں کے مفادات نظر انداز کرتے ہوئے ڈومور کا مطالبہ کرتاہے ، امر یکہ کے ایسے ہی رویئے نے پا کستان کو ہمیشہ مایوس کیا ہے ، اس کے باوجود امر یکہ سے اچھے تعلقات استوار رکھنا ہی پا کستان کی مجبوری رہا ہے ،امر یکہ نے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح پاکستانی حکومت کو بھی اپنا دست نگر بنا رکھا ہے ، اس پر ہر پا کستانی حکومت نہ صرف خوشی کا اظہار کر تی ہے ، بلکہ اس کی ہی غلامی میں رہنے کو تر جیح بھی دیتی ہے ۔
اس بات سے جتنا مر ضی انکار کیا جائے کہ ہمارے معاملات میں امر یکہ مداخلت نہیں کر تا ہے ،کوئی مانے گا نہ ہی یقین کرے گا ، کیو نکہ سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران ایک فون کال پر ہی ڈھیر ہو جاتے ہیں اور ایک امر یکی تر جمان کے بیان پر ہی پاک ایران گیس معاہدے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ، ہمارے میں اتنی ہمت بھی نہیں ہوتی ہے کہ اُن سے پو چھنے کی ہی جسارت کر لیں ، ہم خود ہی مختلف تو جہات تلاش کر نے لگتے ہیں ، باہمی مفادات و علا قائی امن و استحکام کی آڑ میں چھپنے لگتے ہیں

اور بتانے لگتے ہیں کہ ہمارے لیے ہر قیمت پر امر یکہ سے اچھے تعلقات قائم رکھنا کتنا ضروری ہے اور ا مر یکی تعاون کے بغیر ہمارے لیے آگے بڑھنا ناممکن ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دونوں ہی ملکوں کے درمیان متعد شعبوں میں تعاون کا سلسلہ جاری ہے ، اس میں تعلیم ،صحت ، موسمیاتی تبدیلی ،وومن ایمپاور منٹ ،زرعت اور توانائی شامل ہیں ، اس کے علاوہ امر یکہ پا کستان کی سب سے بڑی بر آمدی منڈی بھی ہے ، گزشتہ مالی سال کے دوران امر یکہ کو پا کستانی بر آمدات کا حجم 6.74ارب ڈالر تھا

،اگر امر یکہ سے معاشی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں تو مزید معاشی فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں ،لیکن امر یکہ کبھی بے مقصد فوائد دینے کاعادی نہیں ہے ، امر یکہ کچھ دینے کے بدلے بہت کچھ لیتا ہے ، اس کے بعد بھی ڈو مور کا مطالبہ دہراتا رہتا ہے ، ماضی کے تجر بات کی روشنی میں امریکہ سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کرنا ،شاید مناسب نہیں ہوگا۔
ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے کی عادت ہی نہیں ہے ،ہم بار بار پرانی غلطیاںہی دہرانے کے عادی رہے ہیں ، اس لیے ایک بار پھر وہی غلطی دہرائیں گے اور پہلے سے زیادہ نقصان اُٹھائیں گے ،امر یکہ نے افغان جنگ میں پا کستان کو الجھا کر جو نقصان پہنچایا ہے، وہ پا کستان اب تک بھگت رہا ہے، ایک بار پھر الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وقت افغان سرزمین سے جو مسلسل دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں، ان کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ نے ایک بریفنگ میں کہا ہے کہ امریکہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا اڈہ بننے نہیں دے گا، اگر اس سے امریکہ کا مقصد ایک بار پھر پاکستان کو ہی استعمال کرنا ہے تو ہمیں سوچ سمجھ کر ہی کوئی قدم اٹھانا ہے،ایک بار پھر دوسرے کی آگ میں خود کو نہیں جلانا ہے۔
امر یکہ بہادر ایک بار پھرخود کو بچانے کیلئے ایک نئی آگ جلا رہا ہے اور اس آگ کا ایدھن پا کستان کو بنانا چاہ رہا ہے ،پا کستان نے امر یکہ سے اچھے تعلقات کے بدلے پرآئی آگ میں دوبارہ کو دنا ہے نہ ہی پرآئی آگ کا ایندھن بنا ہے ، ہم نے امر یکہ کے خط ،جواب خط کے سحر سے نکلناہے ، ہم نے گوادر منصوبے کو پائے تکمیل تک پہچانا ہے اور پاک ایران گیس منصوبے بھی جاری رکھنا ہے ، ہم نے امر یکہ سے اچھے تعلقات ضرور قائم کرنے ہیں ،مگر امر یکہ کا آلہ کار بن کر اپنے قومی مفادات قر بان کر نے ہیں

نہ ہی اپنے ہمسائیہ دوست ممالک ناراض کر نے ہیں ، یہ امر یکہ سے ہر قیمت پر تعلقات قائم رکھنے کی سوچ رکھنے والوں اورایسے مشورہ دینے والوں کو تھوڑا سا قومی مفاد میں بھی سوچ لینا چاہئے، کہئں ایسا نہ ہو کہ اُن کے مشورے حالات میںا تنا بگاڑ پیدا کر دیں کہ پا کستان مزیدکئی دہائوں تک ان مشوروں کی ہی بھاری قیمت ادا کرتا رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں