سیاسی بحران میں بھونچال کی گونج !
ملک بحران در بحران کا شکار ہے ،لیکن سیاسی روئیوں میں کوئی تبدیلی ہی نہیں آرہی ہے، ملک میں ایک ہی طرح کے مناظر دکھائی دیے رہے ہیں، ایک جیسے ہی ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں، وقت تیزی سے بدل رہا ہے ،لیکن اہل سیاست بضد ہیں کہ تم بدلے نہ ہم بدلیں گے، حزب اقتدار اپنی من مانیوں سے باز آر ہے ہیں نہ ہی حزب اختلاف اپنی روش چھوڑر ہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے سارے ہی کسی نہ کسی کٹھ پتلیاں ہیں اور کسی کے اشارے پر ناچ رہے ہیں، اگراس طرح سے ہی حالات چلتے رہے تو اگلے سو سال تک بھی ملک میں استحکام آ پائے گانہ ہی ملک کے حالات بدلیں گے۔
اس ملک میں کسی کو استحکام لانے کی کوئی فکر ہے نہ ہی عوام کی بد حالی کاکوئی خیال ہے ، عوام بدترین مہنگائی جھیل رہے ہیں اور صنعتکار پریشان ہیں کہ آئے روز بڑھتے نرخوں پر بجلی گیس لے کر کیا بنائیں، کیا بیچیں اور کیا کمائیں گے،ایک طرف ملک کی دگرگوں ہوتی معاشی صورتحال ہے تو دوسری جانب سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے تمام توانائیاں صرف کر رہے ہیں ، ملک دشمنوں کی کوشش ہے کہ سی پیک سے لے کر ڈیمزاور بجلی ،گیس کے سارے ہی منصوبے پیک کروا دیے جائیں ، دشمن کے پالان ناکام بنانے کے لئے پاک فوج کے کڑیل جوان اور افسر اپنی جانوں پر کھیل رہے ہیں ،جام شہادت نوش کررہے ہیں،اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں،جبکہ اہل سیاست کو اقتدار کی بندر بانٹ اور اختلاف برائے اختلاف سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے۔
یہ ایک عام خیال کیاجارہا تھا کہ الیکشن کے بعد سیاسی اضطراب کم ہوگا اور نئی حکومت آتے ہی یکسو ئی سے پاکستان کے معاشی و امن و امان کے چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہو جائے گی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) نے ایک ساتھ بیٹھ کر اقتدار کی بندر بانٹ کر لی اور حزب اختلاف کی مخصوص نشستیں ہتھیا کر سینٹ الیکشن بھی جیت لیا ،لیکن ابھی تک اتحادی ائیرلائن کاطیارا فضا میںبلند ہی نہیں ہو پارہا ہے، اتحادی حکومت کی جانب سے نمائشی اعلانات تو بہت ہورہے ہیں، لیکن عملی اقدامات کہیں دکھائی دیتے ہیں
نہ ہی سیاسی و معاشی استحکام آرہا ہے، اقتصادی میدان میں پیش رفت سیاسی استحکام سے مشروط ہے، لیکن سیاسی استحکام کہاں سے آئے گا، جب تک کہ جارحانہ مزاج اہل سیاست ایک دوسرے کے منہ پرتیزابی پچکاریاں مارتے رہیں گے۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ اس سیاسی عدم استحکام میںحکومت اور اپوزیشن دونوں کا ہی برابر ہاتھ رہا ہے ، حکومت ایک قدم آگے بڑھا رہی ہے نہ ہی اپوزیشن ہاتھ ہاتھنے کیلئے تیار دکھائی دیتی ہے ،اس اختلافی رویئے کی باعث ہی سیاست میں ایک ایسا بھونچال آیا ہواہے، جو کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے
،دونوں جانب سے عجیب قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات داغے جا رہے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں ،اس سے عدلیہ بھی بچ نہیں پائی ہے، اسلام آبا دہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط نے اک نیا ہی پنڈورا بکس کھول دیاہے،اس پر چیف جسٹس صاحب ازخود نوٹس لے چکے ہیں، اب عدالتیں لگیں گی ،سماعتیں ہوں گی اور پھر معاملہ فل کورٹ کی طرف جائے گا، اس کے بعد فیصلہ سب ہی جانتے ہیں کہ کیا آئے گا ،لیکن از خود نوٹس پر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
اس ملک میںایک طرف الزامات کی گندی سیاست ،معاشی ابتری ہے اور دوسری جانب دہشت گردی ہے، ایک دوسرے کے معاملات میں بے جا مداخلت ہے ،اپنے دائرے سے تجاوز کرناہے ،اس بھونچال اور عدم استحکام کے ماحول میں توقع کی جارہی ہے کہ کوئی یہاں آکر ڈالروں میں سرمایہ کاری کرے گا ،زرمبادلہ بڑھے گا ،معاشی استحکام آئے گاتو اسے دیوانے کی بڑ کے سوا کیا کہاجاسکتا ہے، اس ماحول میں حکومت جتنے مرضی بڑے بڑے دعوئے کر لے، جتنے مرضی نمائشی اعلانات کر لے ، کچھ ہونے والا ہے نہ ہی کچھ بدلتا دکھائی دیے رہا ہے ،اس حکومت کے سارے ہی دعوئے اور اعلانات دھرے کے دھرے ہی رہ جائیں گے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سادہ سا سوال ہر ذہن میں اُٹھتاہے کہ کیا ملک ایسے چلتے ہیں اورکیا ایسے چلائے جا سکتے ہیں؟ ملک کی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے، قرض در قرض کا بوجھ آسمان سے باتیں کررہا ہے، آئی ایم ایف کی عملی غلامی قبول کی جا چکی ہے اور اس غلامی کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جارہا ہے ، عوام سراپہ احتجاج ہیںاورحکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے، طاقت کے ذریعے مخالف آوازوں کو دبانے کا گھسا پٹا طریقہ آزمایا جارہا ہے،یہ طریقہ کار ہو گا نہ ہی مظلوم کی آواز دبے گی ، عوام کی ہی آواز سے آواز ملاتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا اور عوام کے ہی فیصلے کو مانا ہو گا ،تبھی اس سیاسی بحران میں اُٹھتی بھونچال کی گونج سے بچاجاسکتا ہے۔