اَمیر حکمراں کے غریب عوام !
پا کستان میں امیر سے امیر تر ہو تا جارہا ہے اور عام آدمی غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے ، اس وقت ملک کی تقر یباََچالیس فیصد آبادی خط ِغربت سے نیچے زندگی گزارنے پر نہ صرف مجبور ہورہی ہے ،بلکہ اس میں گزشتہ مالی سال کے دوران مزید 4.5فیصد اٖضافہ بھی ہوا ہے ،عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پا کستان میں مزید ایک کروڑ افراد کے غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا اندیشہ ہے، اس ملک کے غریب عوام خط غربت سے نیچے چلے جارہے ہیں،لیکن اس سب سے حکمرانوں بے پرواہ ہیں ، کیو نکہ اُن کی تجوریاں بھررہی ہیں اور وہ اُمرا میں اُوپر سے اُوپر ہی چلے جارہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک غریب ملک کے آزمائے حکمران اتنے امیر اور عوام اتنے غریب ہیں کہ خط ِغربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پرمجبور ہورہے ہیں ، کیا یہ آزمائے امیر حکمران عوام لائے ہیں یا بار بار ان پرمسلط کر دیئے جاتے ہیں؟ اگر یہ عوام میں سے ہوتے اور انہیںعوام لاتے تو عوام جیسے ہی ہوتے اور عوام کا احساس بھی کرتے، لیکن یہ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں نہ ہی انہیں عوام نے منتخب کیا ہے ، اس لیے عوام ان کی تر جیحات میں ہیں نہ ہی عوام کو اپنی تر جیحات میں شامل کرتے ہیں، یہ اشرافیہ کے نمائندے ہیں اور اشرافیہ کے ہی ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔
پا کستانی غریب عوام کل بھی مہنگائی ،بے روز گاری سے نبر آزما تھے اور آج بھی اپنے بڑھتے معاشی مسائل کا تنے تنہا مقابلہ کررہے ہیں ، ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق پا کستانیوں کی اوسط فی کس آمدن 1766 ڈالر سے گھٹ کر1568ڈالر ہو چکی ہے ،اس کا سب سے زیادہ براہِ راست اثر متوسط اور نچلے طبقے پر پڑرہا ہے اور ان کیلئے جسم و جاں کا رشتہ بر قرار رکھنا انتہائی مشکل ہو تا جارہا ہے ، اس صورتحال میں حکومت کیلئے لازم ہے کہ مہنگائی کم کر نے اور عوام کی قوت خرید بڑھانے کیلئے بروقت موثر اقدامات کرے ، لیکن حکومت نمائشی بیانات اور اعلانات کر نے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کررہی ہے ،مہنگائی کنٹرول کررہی ہے نہ ہی عوام کو رلیف دیے رہی ہے ، اُلٹا آئے روز بجلی ، گیس ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کا جینا عذاب بنائے جارہی ہے۔
ہر دور اقتدار میں عوام کے نام پر آنے والوں نے ہی عوام کو قر بانی کا بکرا بنایا ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، ایک طرف قر ض پر قر ض لے کر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جارہا ہے تو دوسری جانب فر سودہ ٹیکس نظام کے ذریعے مرے غریب کو مزید مارا جارہا ہے،ہمارے ٹیکس کا فرسودہ نظام غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ ڈالتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق ہمارے 80 فیصد سے زیادہ ٹیکسوں کی وصولی درمیانے اور غریب طبقے سے بجلی، گیس، موبائل فون، پٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیا پر عائد ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے، جبکہ امیر ترین طبقہ صرف 5 فیصد کے قریب ٹیکسوں کی صورت میں ادائیگی کرتا ہے
،اس غیر منصفانہ نظام میں ایسی اصلاحات کہ جن میں غریبوں پر ٹیکسوں میں کمی شامل ہو، اس سے ہی غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے اور کم آمدنی والے لوگوں کے لیے زندگی بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جا سکتے ہیں،اس بڑھتی غربت میں کمی پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے، ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے جلد ہی ہم ایک پرتشدد سماجی بحران کا شکاربھی ہو سکتے ہیں۔
یہ انتہائی فسوسناک امر ہے کہ پاکستان کا معاشی ماڈل غربت میں کمی نہیں لارہا، بلکہ غربت میں مزید اضافے کاہی سبب بن رہا ہے ، اس کے باوجود ادارتی اصلاحات ہورہی ہیں نہ ہی اپنی پرانی پالیساں تبدیل کی جارہی ہیں، آزمائے حکمرانوں کے پاس کوئی پلان ہے نہ ہی نئے پلان کی اہلیت رکھتے ہیں، یہ ہر بار ہی دعوئے کرتے ہیں، جبکہ ان کے سارے ہی دعوئے اُن کی طرح آزمائے ہوئے ہیں،پاکستان کی موجودہ پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے ، لیکن آزمائے حکمرانوں میں اتنی اہلیت ہی نہیں ہے
کہ کوئی تبدیلی لا ئیں ،جبکہ پاکستان آج ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں اُسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اشرافیہ کی گرفت اور مخصوص حلقوں کے مفادات کے تحت کئے گئے فیصلوں پر کاربند رہتے ہوئے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی چالیس فیصد آبادی کے ساتھ پسماندہ رہنا ہے یا ان فیصلوں پر نظرثانی کرکے تابناک مستقبل کیلئے راستہ تبدیل کرنا ہے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے بھی بارہا زور دے رہے ہیں کہ حکومت اپنی اصلاح کرے اور امیروں پر ٹیکس لگاکر غریبوں پر خرچ کرے،،اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا اور غریب کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہاتو وہ وقت زیادہ دور نہیں رہا ہے کہ جب غریب عوام مجبور کر آزمائی حکمران اشرافیہ سے دست گریباں ہو جائیں گے تو پھر ا نہیں کوئی بچاپائے گانہ ہی دوبارہ لا پائے گا۔