کون بے جا مداخلت کر سکتا ہے ! 54

اس شجر سے اُمید بہار رکھ ۔ !

اس شجر سے اُمید بہار رکھ ۔ !

ملک سنگین بحرانوں کی زد میں ہے اور اہل سیاست کو دست گریباں ہونے سے ہی فرصت نہیںہے، ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں ،ایک دوسرے کو ہی بحرانوں کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ، کل کوئی کسی کا لاڈلہ بنا رہا، آج کوئی کسی اور کا لاڈلہ ہوگیا ہے، وقت نے کچھ ایسی کروٹ لی ہے کہ سب کچھ ہی بدل گیاہے ، اس کی ذمہ داری اُن لوگوں پر ہی آئید ہوتی ہے ،جوکہ اقتدار کے لیے کٹ پتلی بنے کے عادی ہو چکے ہیں،

یہ عوامی مینڈیٹ سے اقتدار تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ ہی عوام کی حمایت سے کبھی اقتدار میں آتے ہیں، یہ جن کے سہارے اقتدار کے ایواں تک پہنچتے ہیںبعدازاںاُن پر سہولت کاری کے الزامات عائد کرنے لگتے ہیں ،انہوں نے کبھی اپنے گریباں میں جھانکا ہے نہ ہی اپنی غلطیوں کو مانا ہے ،یہ بار بار وہی پرانی غلطیاں ہی دہرائے چلے جارہے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو اہل سیاست نے کبھی مل بیٹھ کر ادارتی اصلاحات کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی ہے، ہر دور میں اصلاحاتی ایجنڈا محض بیانیہ تک ہی محدود رہا ہے ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر دور میں کوئی نا کوئی ایک سیاسی جماعت انتقام کا شکار رہی ہے،لیکن ہم نے اپنے ماضی سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے

،؟ ہم کل بھی سہولت کاری کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند رہے اور آج بھی سہولت کاری کے ذریعے ہی اقتدار پر بر جماں ہیں ، لیکن مانے کو تیار ہیں نہ ہی اپنی روش چھوڑ رہے ہیں، کیا ہم بہتر اصلاحات کے ذریعے سیاست کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ہیں؟ کیا اس وقت ضرورت اس امر کی نہیں ہے کہ ملک کو ایک بہتر مضبوط موثر مداخلت سے پاک نظام دیا جائے؟
یہ ایسے سوالات ہیں کہ جس کے جواب کی قوم منتظر ہے اور چاہتی ہے کہ اْن کے سیاسی نمائندے ایک بار مل کر ملک کے تمام تر اداروں میں بہتر موثر غیر جانبدار صاف شفاف اصلاحات کا عمل شروع کریں، ہر ایک کو قانون وآئین کے مطابق اپنے فرائض کی ذمے داری کا احساس دلاتے ہوئے پابند کیا جائے اور کسی کو کسی کے بھی فرائض میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے،کوئی ایک دوسرے کو مداخلت کیلئے پکارے نہ ہی کوئی مداخلت کیلئے آئے ، ہر کوئی اپنے دائرے تک ہی محدود رہے

اور اپنا عزت وقار قائم رکھیں، اہل سیاست سدا کسی کے وفادار رہتے ہیں نہ ہی سہارے دینے والے سدا کسی ایک کی پشت پناہی کرتے ہیں ، یہاں سب اپنے مفادات کے پیش نظر وقت کے ساتھ کروٹ بدلتے رہتے ہیں ، ایک سے ہاتھ ہٹا کر دوسرے پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور اُسے پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ کب سے بے سہارا کر دیا گیا ہے۔
ہم سب ایک دوسرے کو آزما چکے ہیں،ایک بار پھر ایک دوسرے کو آزمانے کے بجائے اب پسند نا پسند کے خول سے نکل کرملک و قوم کے بہتر مستقبل کا سوچنا ہوگا،اس حوالے سے اہل سیاست پرسب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیاسی انتقام کی ضد میں ایک دوسرے کی تضحیک کا سبب بنے کے بجائے مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے ، اگر انتقامی سیاست کی روش ایسے ہی چلتی رہی توبہت جلد سیاست اور جمہوریت کا باب ہی بند کر دیا جائے گا، اس کا سب سے زیادہ نقصان اہل سیاست کو ہی ہوگا ،

لہٰذا وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو چاہئے کہ وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے قدم آگے بڑھائیں ،تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کریںاور اپوزیشن کو مفاہمت اور اداروں میں بہتر اصلاحات کی دعوت دیں، اپوزیشن قیادت کو بھی چاہئے کہ ملک وقوم کے مفاد میں حکومت کے ساتھ اصلاحاتی ایجنڈے پرمل بیٹھے، تاکہ اس بار نہیں تو اگلی بارہی سہی ،ملک وقوم کو غیر جانبدار صاف شفاف مداخلت سے پاک انتخابات کے ذریعے عوامی منتخب حکومت نصیب ہوسکے، اگرحکومت اور اپوزیشن قیادت چاہئے تو پارلیمان میں مل بیٹھ کر سارے الجھے معاملات سلجھا بھی سکتے ہیں ۔
کیا حکومت اور اپوزیشن اپنی ذاتیات کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے

قومی مفاد میں مل بیٹھیں گے اور اپنے سارے الجھے معاملات سلجھا لیں گے؟اس کے آثار کم ہی دکھائی دیتے ہیں ،لیکن طاقتور حلقے چاہیں تو ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں، اہل سیاست کی سمت درست کر سکتے ہیں ،عوام بھی چاہتے ہیں کہ حالات میں بہتر آئے، اُن کی زند گی میں کوئی تبدیلی آئے، عوام اچھے وقت کے انتظار میں حکومت وقت کی جانب دیکھ رہے ہیں، جبکہ اتحادی حکومت قیاس آرائیوں کے سائے تلے چل رہی ہے اور یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ آیندہ کیا ہو نے والا ہے اورحکومت کااونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے ،اس صورتحال میں عوام سے بس اتنا ہی کچھ کہاجاسکتا ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں