ایک اور الائنس
جمہور کی آواز ایم سرور صدیقی
سیاست میں بھونچال لانے کے لئے حکومت مخالف ایک اور الائنس بنانے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے اب تحریک انصاف نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بنائے جانے والے نومولود گرینڈ الائنس کے تحت پہلا جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپوزیشن کی اتحادی جماعتیں مل کر موجودہ حکومت کے خلاف 13 اپریل کو بلوچستان کے ضلع پشین سے بھرپور عوامی تحریک کا آغاز کریں گی حکومت مخالف اتحاد پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات کے نتائج پر تحفظات رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ ملکر تشکیل دیا ہے
جس میں سرِدست بلوچستان نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، وحدت المسلمین سمیت دیگر شامل ہیں جس کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہوں گے اس اتحادکا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو اس کاایک مثبت پہلو یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی سے قوم پرست رہنما کی چھاپ ختم ہو جائے گی اور وہ قومی دھارے میں شامل ہوکرملکی لیول پر سیاست کریں گے موصوف چند روز میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر کے انہیں بھی الائنس میں شمولیت پر قائل کریں گے کیونکہ دو سیاستدانوںکی جوڑی نے مولانا سے جو ہاتھ کیاہے اس سے وہ بہت گرم ہیں حالانکہ وہ عمران خان کے خلاف زمین گرم کرنا چاہتے تھے
لیکن ضروری تو نہیں انسان کی ہر خواہش پوری ہوجائے اور خواہشوںکا کیا یہ تو شتر بے مہار کی طرح بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں ۔تحریک ِ انصاف کور کمیٹی نے خواتین قیدیوں اور خصوصا عالیہ حمزہ و صنم جاوید کی ضمانت منظور ہونے کے بعد دوبارہ گرفتاری اور ریمانڈ کی شدید الفاظ میں مذمت کی، اس کے علاوہ بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت تمام قائدین اور کارکنان کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ کورکمیٹی کی جانب سے خیبرپختونخوا میں سینٹ انتخابات ملتوی کرنے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا اقدام، دستور کے کھلی بے حرمتی، وفاق کی وحدت و یکجہتی پر حملہ اور عوام کے ووٹ کے حق کی کھلی پامالی کی کوشش ہے، نامکمل ایوانوں کے ذریعے جمہوریت کو داغدار کرنے اور الیکشن کمیشن کی مجرمانہ معاونت سے عوام کے ووٹ کے حق کو غیر مؤثر کیا جارہا ہیپاکستان تحریک انصاف نے 14 رکنی سیاسی کمیٹی کا اعلان کردیا، کمیٹی پی ٹی ا?ئی کور کمیٹی کے فیصلوں کو حتمی شکل دے گی بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر قائم کی گئی
کورکمیٹی میںکمیٹی میں عمر ایوب خان، گوہر خان، سینیٹر شبلی فراز، علی امین گنڈاپور، اسد قیصر، شیر افضل مروت اور شاہ فرمان شامل ہوں گے جبکہ رؤف حسن، عون عباس بپی، حماد اظہر، عاطف خان، حافظ فرحت، میاں اسلم اور خالد خورشید شامل بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ کورکمیٹی کے اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو مشکوک خطوط کے ذریعے ہراساں کرنے کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث عناصر کیخلاف عبرتناک کارروائی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ کورکمیٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تحریک انصاف کا انتخابی نشان ’’بلّا‘‘ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ انٹراپارٹی انتخابات کی تمام تر تفصیلات جمع کروائے جانے کے بعد تحریک انصاف کے انتخابی نشان کی عدم بحالی کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ اب نومولود سیاسی اتحادمیں تحریکِ انصاف کے علاوہ کوئی بڑی جماعت شامل نہیںہے اس کا مطلب ہے چھوٹی جماعتیں تحریک ِ انصاف کو استعمال کریں گی
یا تحریک ِ انصاف چھوٹی جماعتوںکو استعمال کرنا چاہ رہی ہے حالات کچھ بھی ہوں ماضی کا تجز یہ ہے کہ بیوروکریسی کی آشیرباد کے بغیر کوئی حکومت مخالف تحریک کی کامیابی ممکن نہیںہوسکتی صرف بیوروکریسی ہی ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے حکومت کے خلاف کوئی بھی احتجاجی تحریک ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دو چار کرسکتی ہے اگر دیکھا جائے تواس سے ملک کاہی نقصان ہو گا قرضوںکا مایہ جال، معیشت کی ناگفتہ بہ حالت ،مہنگائی ،بیروزگاری اور غربت نے پہلے ہی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگارکھاہے ملکی جغرافیائی حالات، دہشت گردی،فرقہ واریت اور مسائل در مسائل کی پریشانیاں الگ ہیں
اس تناظرمیںحکومت کو سیاسی استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے عام انتخابات کے نتائج پر جو تحفظات ہیں انہیں دور کرنے کیلئے پیش رفت کی جانی چاہیے ملک کسی ایجی ٹیشن کا متحمل نہیں ہوسکتا حالانکہ کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتوںکو کوئی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ بجلی اور پیٹرول مہنگا ہو گیا ہے، حکومت کیسے چلے گی؟ عوام اب خود سڑکوں پر آئیں گے، موجود حکومت 2 مہینوں سے زیادہ نہیں چل سکتی اب دیکھتے ہی کیا ہوتاہے بہرحال یہ بات طے ہے کہ اگر عمران خان جیل سے باہر آجاتے ہیں تو آنے والے دن حکومت کے لئے بہت سخت ثابت ہوں گے سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہناہے کہ پھر شہباز حکومت مفلوج ہوجائے گی۔