یہ وقت دست گریباں ہونے کا نہیں !
اس ملک میں بر سر اقتدار آنے والے تقاریر ہی کررہے ہیں ،صدر مملکت کی تقر یر کا بھی شدت سے انتظار تھا ، لیکن انہوں نے بھی اپوزیشنکے شور شرابے میں وہی باتیںدہرائیں ، جو کہ گزشتہ چھتر سال سے پاکستانی حکمران دہراتے چلے آرہے ہیں، پا کستانی عوام کبھی حکمرانوں کے مخاطب نہیں رہے، حکمرانوں کے مخاطب لانے والے اور ساتھ چلنے والے ہی ہوتے ہیں،صدر مملکت کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ہم اختلافات لے کر نہیں چل سکتے،
لیکن اگر صاحبان اقتدار اپنی سیاست پر غور فرمائیں تو موجودہ صورتحال خود اِن کی ہی پیدا کردہ ہے ،اس لیے زبانی مکالمہ بازی کے بجائے اہل اقتدار کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور ایسی غیر جانبدارانہ و منصفانہ فضا بنانے کی ضرورت ہے کہ جس میں اپوزیشن کی بات سنی جائے اورتمام سیاسی، انتخابی اور پارلیمانی روایات کی پاسداری بھی کی جائے، لیکن ایسا کچھ عملی طور پر ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
اس ملک کی پارلیمان کے اندر اور باہر جوکچھ بھی ہورہا ہے ، یہ سب کچھ حسب رو یت ہی ہورہا ہے ، یہ حزب اقتدار والے جو آج اعتراضات کررہے ہیں ،یہ سب کچھ کل خود بھی کر تے رہے ہیں ، لیکن انہیں آج سب کچھ برا لگ رہا ہے،کیو نکہ ان کے خلاف ہورہا ہے، اس ملک کے اہل سیاست کو ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام سے غرض ہے نہ ہی کوئی بڑا قومی ہدف حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،
بلکہ اگر مزاج نازک پر گراں نہ گزرے تو کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ آزمائی سیاسی قیادت کی گفتگو اور ان کاکردار اس بات کی نشاندہی کررہاہے کہ یہ لوگ ملک کو درپیش مسائل سمجھنے کی بنیادی صلاحیت سے ہی محروم ہیںتو ملک کو در پیش بحرانوں سے نجات کیسے دلائیں گے ،یہ آج بھی سیاست کو کھیل سمجھ کر عہدوں اور اختیارات کی تقسیم کا ذریعہ ہی سمجھتے ہیں،اس کا اظہار کابینہ سازی اور عہدوں کی تقسیم سے بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ دو سال پہلے جو سیاسی ’کھیل‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کھیلتی رہی ہیں، آج وہی کھیل تحریک انصاف قیادت کھیلنے کی کوشش کررہی ہے
،مقتدر حلقے کبھی کسی کے حریف رہے نہ ہی اب کسی کے حریف ہیں، ہر ایک کو ان کاساتھ مطلوب ہے، اہل سیاست کی ان سے لڑائی ہمہ وقت اپنا وزن ان کے ہی پلڑے میں نہ ڈالنے پر رہتی ہے ، میاںنواز شریف نے جب ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ لگایا تو ان کا شکوہ بھی یہی تھا اور اب تحریک انصاف قیادت بھی ایسا ہی شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ آخر ہم میں کیا برائی تھی کہ ہمیں ہٹاکر انہیں اقتدار دیا ہے،
اس لیے ہی ایک طرف اتحادیی قیادت جی حضوری میں ساری حدیں پار کررہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن قیا دت اپنا دبائو بڑھائے جارہے ہیں کہ اُن سے بات کی جائے اور انہیں موقع دیا جائے ، کیو نکہ انہیں عوام کی بھر پور حمایت بھی حاصل ہے ۔
یہ بات مقتدر حلقے جانتے ہیں اور حزب اقتدار بھی مانتے ہیں ،لیکن اقتدار عوام کے حمایت زدگان کو دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ، اس سیاسی عاقبت نا اندیشی کے ماحول میں سیاسی ہم آہنگی یا مشترکہ قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے مل جل کر کام کرنے کا آغاز کیوں کر ہو سکتا ہے، جبکہ صدر آصف علی زرداری خود کو ہی عقل قول اور خود کوہی جمہوریت کا بڑا علمبر دار سمجھتے ہیں، آصف زرداری ایک طرف پولرائزیشن ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں
تو دوسری جانب انہیں اپنی پارٹی قائدین کے علاوہ کسی کے کردار میں کوئی ایسی خوبی ہی دکھائی نہیں یتی کہ جس کا بالواسطہ حوالہ دے کر وسیع تر قومی یک جہتی کا عملی مظاہرہ کر سکتے ، اگر اسے گروہی سیاست نہیں کہتے تو نہ جانے اپنے نعرے اور اپنے ہی لیڈر وں کے پر چار کااور کیا مقصد ہو سکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ بار ہا آزمائی قیادت خود کو ہی ملک و عوام کا نجات کندہ تصور کرتے ہیں ،پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ( ن)قیادت بار بار مقتدرہ کی پشت پناہی سے اقتدار میں آکر سمجھتے ہیں کہ عوام کو بہلالیں گے یابہکا لیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے ،وقت تیزی سے بدل رہا ہے ،لیکن مقتدر قیادت کے ساتھ مل کر آزمائی قیادت آزمائے فار مولے ہی آزمائے جارہے ہیں ، یہ آزمائے فار مولے اب چلنے والے ہیں نہ ہی زبانی کلامی باتوں سے کچھ بد لے گا، بد لتے وقت کا تقا ضا ہے کہ زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کیے جائیں
اور عوام کے ہی فیصلے مانیں جائیں ،عوام کے فیصلوں کو اب زیادہ دیر تک نظر اندازکیا جاسکتا ہے نہ ہی عوام پر اپنے فیصلوں کو زیادہ دیر تک مسلط رکھا جاسکتا ہے ، کیو نکہ اس کے خلاف عوام آواز اُٹھانے لگے ہیں ، عوام باہر سڑکوں پر آنے لگے ہیں اور اپنے ووٹ کا حق استعمال کر نے کے ساتھ احتجاج بھی کر نے لگے ہیں ، اس بدلتے عوامی موڈ کو جتنا جلد سمجھ لیا جائے ،اس میں ہی سب کی بہتری ہے ، یہ وقت دست گر یباں ہو نے کا نہیں ، لیکن اگر عوام کو بے انتہا مجبورکر دیا گیا تو پھر عوام کے ہاتھ آئے گریباں کوئی چھڑانہیں پائے گا۔