کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا ! 60

کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا !

کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا !

پا کستان کو زرعی ملک ہونے کے باوجود باہر سے گندم منگوانا پڑتی ہے ، کسانوں سے بارہا کہا جاتا رہا ہے کہ گندم کی پیداوار بڑھائیں ، حکومت اچھامعاوضہ دیے گی ، اس بار کسانوں نے محنت کر کے گندم کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے تو حکومت ان سے مقرر کردہ نرخ پر گندم کی خریداری ہی نہیں کررہی ہے ، اس حکومتی روئیے کے خلاف کسان سراپہ احتجاج ہے ، جبکہ حکومت کسانوں کی دارسی کرنے کے بجائے

ان پر لاٹھیاں برسارہی ہے اور انہیں گرفتار کررہی ہے ،اگر کسانوں کی اتنی بڑی تعداد حکومت سے ناراض ہو گئی تو پھرحکمرانوں کیلئے گورنس انتہائی مشکل ہو جائے گی ۔اس اتحادی حکومت کا ایسا ہی وطیرہ رہا ہے کہ اپنے حق کیلئے جو بھی ان کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے ، اس آواز کو نہ صرف دبایا جاتا ہے ،بلکہ آواز اُٹھانے والوں کو پابند سلاسل بھی کیا جاتا ہے ،کسانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا جارا ہے ،

کسان اپنے حق کیلئے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، ان پر لاٹھی چارج اور گرفتار کیا جارہا ہے، لیکن ان سے پو چھا جارہا ہے نہ ہی ان کامسئلہ حل کیا جارہا ہے ، حکومت کسان کے مسائل کا حل کیسے تلاش کر سکتی ہے ،جبکہ اس کی خود ہی سب سے بڑی ذمہ دار ہے ، حکومت نے قبل از وقت ہی اپنے حواری سر مایہ داروں کو خوش کرنے کیلئے گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی تھی ، گودام جب در آمدی گندم سے بھرے ہونگے تو اپنے کسان کی گندم کیسے خریدی جائے گی ؟
اس ملک کے آزمائے حکمرانوں کو اپنے کسانوں سے زیادہ اپنے سر مایہ دار حواریوں کی فکر کھائے جاتی ہے ،اس لیے ہی اُن کا فائدہ دکھا گیا اور کسان کو بے انتہا نقصان پہنچایا جارہاہے ،اس کے بعد سارا مودا نگران حکومت پر ڈالا جارہا ہے

کہ انہوں نے گندم درآمد کی اجازت دی ، جبکہ نگران حکومت بھی اتحادی حکومت کا ہی تسلسل رہی ہے اور موجودہ اتحادی حکومت بھی نگراں حکومت کا ہی تسلسل ہے، یہ ایک دوسرے کو اپنے ووٹ سے منتخب کراتے ہیں اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کو مود الزام بھی ٹہراتے ہیں ، لیکن اند سے سب ہی ایک ہیں اور اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ، بڑی سیاسی جماعتیں جب سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بدعنوانی اور استحصالی لوٹ مار کی معاون ہوجائیں تو پھر انجام بھی ایسا ہی ہو گا، ،اس ملک کا کسان اپنی فصل کی اُجرت سے اور عام آدمی سستی روٹی سے محروم ہی رہے گا۔
اس ملک میں جب تک آزمائے کو ہی آزمایا جاتا رہے گا ، ملک بدلے گا نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی ، اس ملک کے آزمائے حکمرانوں کے نعرے، دعوے اور ان کا عمل سب کے سامنے ہے،ایک طرف ریاست بچانے اورعوام کی زندگی میں خو شحالی لانے کے دعوئے کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب عوام کو سرعام سڑکوں پر مارا پیٹا جارہا ہے، یہ حکمران اشرافیہ سرمایہ دارانہ نظام کو انتہائی سفاکی کے ساتھ عوام پر مسلط کررہی ہے اور عوام چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپارہی ہے، یہ گندم کا بحران اور کسانوں کا احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ملک کے طاقتور طبقات کو عوام کے حالات اور ان کی بے کسی صاف نظر آرہی ہے،لیکن ان کی تر جیحات میں عوام ہیں نہ ہی کسان رہے ہیں ، ان کی تر جیحات میں وہی لوگ ہیں جوکہ ان کے مفادت کا خیال کرتے ہیں اور یہ بھی اُن کا ہی خیال رکھتے ہیں۔
اس مفاد پر ستی کے دور میں عوام کے ساتھ کسان بھی بری طرح رُل گیا ہے ،حکومت کی طرف سے گندم کی خریداری نہ کر نے باعث ڈیلرز اور فلور ملز مالکان کسانوں کا خوب استحصال کررہے ہیں اور گندم سر کاری ریٹ سے ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے فی من کم قیمت پر خر ید رہے ہیں،اس کم قیمت پر کسان کیا منافع کمائے گا اور کیسے اپنی لاگت پوری کرے گا ، وزیر اعظم کی جانب سے انکوری کمیٹی بنادی گئی ہے ، اس کمیٹی کی رپورٹ بھی سامنے آرہی ہیں ، لیکن اس رپورٹ میں نقصان کا اندازہ اور ذمہ داروں کا تعین ماسوائے خانہ پوری کے کچھ بھی نہیں ، یہاں کبھی کسی کا احتساب ہو اہے نہ کبھی ہو نے والا ہے ، کیو نکہ اس حمام میں سارے ہی مل کر نہارہے ہیں اور خود کوہر قسم کے احتساب سے محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن کسان کو فصل کی اُجرت سے محروم کرکے سبق دیے دیا گیا ہے کہ آئندہ اپنی جان مار کر گندم بوئے گا نہ ہی پیداوار میں اضافہ کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں