اختلاف میں اشتراک عمل کی راہیں !
پا کستان وسائل سے مالہ مال ہے اور سر مایہ کاری کے بے انتہا موقع بھی پائے جاتے ہیں ، اس کے باوجود سر مایہ کاری نہیں ہورہی ہے تو اس کی میں وجہ حکمرانوں کا غیر سنجیدہ رویہ رہا ہے ، اس بار اتحادی حکومت سنجیدہ رویہ دکھانے اور سر مایہ کار ی لانے کی پوری کوشش کررہی ہے،حکومت امداد کے بجائے سر مایہ کاری کیلئے دوست ممالک کو دعوت دیے رہی ہے ، دوست ممالک بھی اب مالی امداد کے بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری ہی کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کیلئے ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام لانا اشد ضروری ہے ،جو کہ موجودہ حالات میںبہتر ہوتا نظر نہیں آرہاہے۔
اس بات سے کو ئی بھی انکار ی نہیں ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام جڑا ہے ،اس کے باوجود سیاسی استحکام لانے میں سنجیدگی دکھائی جارہی ہے نہ ہی کو ئی مو ثر پیش رفت کی جارہی ہے ، ہر کوئی زبانی کلامی ہی مذاکرات کی باتیں کررہا ہے ، ہر کوئی زبانی کلامی ہی استحکام لانے کے دعوئے کررہا ہے ، جبکہ عملی طور پر سارے ہی اپنے دائروں کے قیدی بنے ہوئے ہیں اور ان دائروں سے باہر نکلنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ، تحریک انصاف اپنا دبائو بر قرار رکھتے ہوئی مقتدرہ سے بات کر نا چاہتی ہے ،
جبکہ مقتدارہ ہردبائو کا تاثر ذائل کرتے ہوئے اہل سیاست کے آپس میں مذاکرات کی خواہاں ہے ، جبکہ حکومتی اتحادی صرف اس لیے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں متحد ہوں گی تو ہی مقتدرہ کے بڑھتے قدم روکے جاسکتے ہیں ۔اس ملک میں ہر کوئی اپنے ہی مفادات دیکھ رہا ہے اور اپنے ہی حصول مفاد کو تر جیح دیے رہا ہے ،قومی مفادات پر بات ہو رہی ہے نہ ہی قومی مفاد ات کو تر جیح دی جارہی ہے ، اگر قومی مفادات کو اپنی ذاتیات پر تر جیح دی جاتی تو حالات قدرے مختلف ہوتے ،
اہل سیاست اور اہل ریاست کے آپس میں مذاکرات ہوتے اور ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام کے آثار بھی دکھائی دینے لگتے، لیکن ایسا کچھ ہو رہا ہے نہ ہی آئندہ ہوتا دکھائی دیے رہا ہے ، اس کے باوجود اُمید لگائی جارہی ہے کہ چین ،ایران ،سعودی عرب کے وفود کے آنے جانے اور یاداشت پر دستخط کرنے سے پا کستان میں سر مایہ کاری کے امکانات روشن ہو جائیں گے تو یہ ماسوائے خود کو بہلانے اورپا کستانی عوام کو بہکانے کے کچھ بھی نہیں ہے ،اس ملک میں جب تک سیاسی ہم آہنگی نہیں آئے گی اور اس کے ذریعے جب تک مثالی امن و امان قائم نہیں کیا جائے گا ،اس وقت تک دوست ممالک کے ساتھ دیگر ممالک کی پا کستان میںسر مایہ کاری کا خواب ادھورا ہی رہے گا ۔
ہمارے ہاں تو ویسے ہی کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کب کیا ہو جائے،یہاں پر کبھی کچھ بھی بدل سکتا ہے، ایک پیچ دوسرے دوسرے پیج پرمنتقل ہو سکتاہے،ایک کی سر پر ستی سے ہاتھ دوسرے کی سر پر ستی پر جاسکتا ہے، ہماری سیاسی تاریخ کچھ ایسی ہی رہی ہے کہ یہاں حکومت بنتی بعد میں ہے، اس کے جانے کی تاریخیں پہلے دینا شرع کر دی جاتی ہیں، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، اس حکومت کے بارے بھی کہا جارہا ہے کہ چند ماہ ہی اور چل پائے گی ،جبکہ حکومت اپنے اتحادیوں کو کا بینہ میں شامل کرکے اور وزارتیں تقسیم کر کے تاثر دینے میں کو شاں ہے کہ حکومت اپنی مدت ضرور پوری کرے گی، تاہم اس بے یقینی کے ماحول میں کوئی احمق یا مجبور ہی ہو گا ،جو کہ اس ملک میںسرمایہ کاری کرے گایا سر مایہ کاری کر نے آئے گا۔
معیشت کی بحالی کے لیے سیاسی استحکام شرط اول ہے،یہ استحکام جن ملکوں میں ہے ، ان کی معیشت ترقی کر رہی ہے، اس کیلئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، بھارت اور بنگلہ دیش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، لیکن ہم ان مثالوں سے استفادہ ہی نہیں کررہے ہیں، ہمارے ہاںجو عوامل سیاسی استحکام کی راہ میں رکاوٹ رہے ہیں وہی عوامل معاشی استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں،سیاسی استحکام کی منزل کا حصول حائل رکاوٹیں دور کر نے سے ہو گااور معاشی استحکام بھی آئے گا،
اس وقت تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہیں،یہ اگر ایک دوسرے کے وجود کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے ہاتھ بڑھائیں تو اشتراک عمل کی راہیں اختلافات کے باوجود نکل سکتی ہیں۔صورتحال میں پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ایڈہاک فیصلے کرے۔ حکومت کے پاس یہ ا?خری موقع ہے کہ وہ مذکورہ اصلاحات پر عملدرا?مد کرکے ملک کو معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔