گرینڈ ڈائیلاگ ہی استحکام لائے گا !
اس ملک کا معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہے،یہ جانتے ہوئے بھی سیاسی استحکام کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے ، اب توآئی ا یم ایف بھی کہنے لگاہے کہ پا کستان کی سیاسی صورتحال انتہائی گھمبیر ہوتی جارہی ہے اور معاشی صورتحال پر اثر انداز ہورہی ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سیاست میں بڑھتی خلیج کا خاتمہ کیا جائے ،لیکن یہاں پر سیاسی تقسیم کو ہی مسلسل ہوا دی دی جارہی ہے ،یہ سب کچھ ایسے ہی زیادہ دیر تک نہیں چلے گا،اس محاذ آرائی کا گرینڈ ڈائیلاگ سے ہی خاتمہ کرنا ہو گا ، ورنہ ہمارے بڑھتے مسائل قابو سے باہرہو جائیں گے۔
اس وقت پا کستان جس صورتحال سے دوچار ہے ،اس میں اتفاق رائے اور قومی وحدت انتہائی ضروری ہے ، لیکن یہاں جب تک عوامی تائید کے لائق حکومت نہیں آئے گی ،قومی وحدت کا خواب ادھورا ہی رہے گا ،اس ادھورے خواب کو کوئی پورا کرنا ہی نہیں چاہتا ہے ، ہر کوئی اسے مسمار کر نے پر تلا ہے ، یہ کوئی جاننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے کہ عوام کی رائے کے خلاف کب تک چلاجاسکتا ہے ؟اگر عوام کی رائے کا ہی احترام نہیں کر نا ہے تو پھر اس نام نہاد جمہوری نظام اور آئین کی کیا ضرورت ہے ؟
لیکن یہاں پر اپنی ہی ریڈلائن کھنچی جارہی ہے اور ہر ایک سے کہاجارہا ہے کہ اسے کراس نہ کیا جائے ، جبکہ ریڈ لائن پا کستان کی سالمیت ہو نی چاہئے ،پا کستان دشمن کو سیاسی جماعت نہیں ، بلکہ وہ لوگ ہیں ،جو کہ کھلم کھلا اعلان جنگ کررہے ہیں ۔اس فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی ریاست کو اپنی حکمت عملی تر تیب دینی چاہئے ، لیکن اس کے بر عکس جیسے بیانات دیئے جارہیں ،انہیں دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ہم اپنے ہی ساتھ کیا کر نے جارہے ہیں ، ہمارے خطرات کیا ہیں اور ہماری تر جیحات کیا ہیں ؟
ہم اپنی آنائوں کے زیر اثر دست گریباں ہیں اور اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھ رہے ہیں ،ہم ایک بار پھر وہی پرانی روایت دھرارہے ہیں کہ جس کے باعث ایک بڑا نقصان بر داشت کرنا پڑاتھا،اگر اس وقت بھی بر وقت درست فیصلے ہو جاتے تو بہت کچھ بچایا جاسکتا تھا ، لیکن اپنی ہٹ دھرمی کے باعث بہت کچھ گنوا دیا گیا،اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہو نے جارہا ہے کہ جس کے نقصان کا ازالہ نہیں ہو پائے گا۔
اس کا ادراک اہل سیاست کوسب سے زیادہ ہورہاہے ہیں،اس لیے ہی کبھی دب الفاظ میںاور کبھی کھلے الفاظ میںمذاکرات اور گرینڈ ڈائیلاگ کی باتیں کی جارہی ہیں ،اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ کے ماحول کو سازگار بنانے کیلئے عمران خان کی ضمانت پر رہائی ہوسکتی ہے ،اس پر میا ں نواز شریف تیار ہیں، لیکن گرینڈ ڈائیلاگ جب بھی ہوگا ،غیرمشروط ہی ہوگا، جبکہ مولانا فضل الر حمن کا کہنا ہے کہ الیکشن میں عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے ہیں تو حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کی جانی چاہئے اور میاںنواز شریف کو اپوزیشن میں آکر بیٹھنا چاہئے ، عوام کی رائے کا احترام کیئے بغیر ملک کو آگے بڑھایا سکتا ہے نہ ہی جمہوریت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت مقتدرہ نے ہی شاہراہ جمہوریت کا راستہ بلاک کر رکھا ہے اور مذاکرات کاڈول ڈالنے ہی نہیں دیا جارہا ہے ، اس غیر سیاسی قوت کو راستے سے ہٹانے اور سیاست سے لاتعلق کرنے کے لیے ایک مشترکہ جد وجہد کی ضرورت ہے،اس حوالے سے کئی متوازی تحریکیں چلائی جارہی ہیں ،لیکن یہ اس کا کچھ بگاڑ پائیں گی نہ ہی سیاست سے نکال پائیں گی ،کیو نکہ یہاں ہر تحریک اُن کے ہی بدولت کا میاب اور اُن کے ذریعے ہی ناکام ہو تی رہی ہے ، اس لیے گریٹر ڈائیلاگ کی ہی بات کر نی چاہئے
اور گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے جہاں شفاف انتخابات کا انعقاداور عوامی رائے کا احترام یقینی بنواناچاہئے ،وہیںادارتی حدود کا تعین بھی یقینی بنانا چاہئے ، گرینڈ ڈائیلاگ سارے ہی الجھے معاملات سلجھانے کا باعث بن سکتا ہے ،لیکن اس کیلئے سارے سٹیک ہو لڈر کو قومی مفاہمت کے جذبے سے شر شار ہونا ہو گا ، کیو نکہ قومی مفاہمت کے جذبے کے بغیر سیاسی معاملات سلجھ سکتے ہیں نہ ہی ملک میں معاشی استحکام لایا جاسکتا ہے ۔