خود دار قوم بننے کی طرف قدم !
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ستترسال ہوگئے ، لیکن اس کی حالت بد سے بدتر ہی ہوتی جارہی ہے ، اس ملک کے عوام کا جہاںاندرون ملک جینا جہاں دوبھر ہوگیا ہے، وہیں گرین پاسپورٹ کی وقعت دوکوڑی کی بھی نہیں رہی ہے،اس کے باوجودحکمران طبقہ اشرافیہ کالبادہ اوڑھے غریب عوام کو ہی خودکشی پر مجبور کررہا ہے اور قوم کو ہی بھکاریوںکی صف میںلاکھڑا کیا ہے ، لیکن مانے کو تیار ہی نہیں ہیں ، وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہم نے کشکول تور دیا ہے ، ہم امداد مانگنے کے بجائے سر مایہ کاری لارہے ہیں ، حکومت ایک طرف ملک میںسر مایہ کاری لانے کی دعوئیدار ہے
تو دوسرے جانب آئی ایم ایف سے بڑے قرض کیلئے مذاکرات بھی کررہی ہے ، اس ملک کے حکمران کب تک ایسے ہی عوام کو بے وقوف بنا کر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے اور بھکاری پن سے نکل کر خود دار قوم بننے نہیں دیں گے؟اگر دیکھا جائے تو اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی قرضوں کی معیشت رہا ہے،اس ملک کے ماہرین معیشت جو اعداد و شمار بیان کررہے ہیں ،اس سے بہت ہی ہولناک تصویر سامنے نظر آرہی ہے،اس قرض کی معیشت کا ہی نتیجہ ہے کہ آئندہ بجٹ کی تیاری کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں، اس مذاکرات میں کوئی نئی بات ہے نہ ہی کچھ منوایا جاسکتا ہے ،
آئی ایم ایف بجٹ بنا کر لایا ہے اور حکومت نے اسے منوعن منظور کر نا ہے ، اس میں بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں گے، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا، روپے کی قدر مسلسل گرتی جائے گی،اس کے باعث ڈالر 350 روپے سے زائد ہوجائے گا، اسکے ساتھ ایف بی آر کیلئے سخت احکامات ہوں گے کہ عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لیا جائے، ایک بار پھر عوام پر ہی سارابوجھ ڈالا جائے گا اور عوام کوہی نچوڑا جائے گا ۔
اس ملک کے عوام کا پہلے سے ہی براحال ہے ، رہی سہی کسر آئی ایم ایف کا بجٹ نکال دیے گا،عوام پربجلی کے اضافی بل ایک عذاب کے کوڑے کی شکل میں ہر مہینے ہی برستے ہیں، اس راہ پراب گیس کمپنیوں کو بھی لگادیا گیا ہے، اس مسئلے پر ہی آزاد کشمیر میں احتجاج مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، ایک طرف بجلی ،گیس کے ناقابل برداشت بل ہیں تو دوسری طرف سخت گرمی کے موسم میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ چل رہا ہے، ملک کے بعض شہروں اور علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 22 گھنٹے تک پہنچ چکاہے،
یعنی لوگوں کو بجلی بھی نہیں مل رہی ہے اور انہیں اس کی قیمت بھی دینا پڑرہی ہے ، اس کے بعد عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہی ہو گا ، یہ سب کچھ عوام کیلئے ناقابل بر داشت ہورہا ہے ، لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ، عوام سر مایہ کاری کے دعوئوں میں قرض پر قرض لے کر عوام کے خون کا آخر قطرہ نچوڑنے پر تلی ہوئی ہے۔یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ حکومت جس سے قر ض پر قر ض لے رہی ہے
،اس کی ہی تازہ جاری ہونے والی رپورٹ میں قرضوں کا حجم 87 ہزار ارب روپے سے زائد ہونے کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے،اس کے باوجود قرضوں کی مصیبت سے جان چھڑانے کے لیے حکومت کے پاس کوئی موثر حکمت عملی ہے ناہی اس سے متعلق طاقتور حلقوں میں کوئی خاص چینی دکھائی دیتی ہے، ایک طرف حکومت کے وزیر خزانہ عداوشمار کے گورک دھندے سے باور کر انے میں کو شاں ہیں کہ ملک معاشی بد حالی سے نکل رہا ہے
تو دوسری جانب ایس آئی ایف سی ملک کو معاشی بحران سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر گامزن کر نے کی دعوئیدار ہے ،لیکن ملک قرضوں کی دلدل سے نکلتا دکھائی دیے رہا ہے نہ ہی خو شحالی کی راہ پر گامزن ہو تا دکھائی دیے رہا ہے ، اس ملک کے آزمائے حکمرانوں اور ان کے سر پرستوں کے زبانی کلامی نمائشی اعلانات و اقدامات ماسوائے عوام کو بہلانے اور بہکانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
اس ملک کے عوام اب کسی بہلائوئے اور بہکائوئے میں آنے والے نہیں ہیں ، عوام با شعور ہیں اور سب کچھ جانتے ہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور یہ سب کچھ کون کروارہا ہے ؟کون معاشی اصلاحات لانے کے بجائے عوام پر ہی بوجھ ڈال رہا ہے اور کون عوام مخالف فیصلے کروائے جارہا ہے ؟اس حکومت کی عوام مخالف پا لیسیوں پر عوام سراپہ احتجاج ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ عوام کا احتجاج بڑھتا ہی جارہا ہے ، عوام مخالف معاہدوں کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لانے اور نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں
،اس ملک کی آزادی کو قرضوں کی معیشت میں جکڑنے والے نہ صرف قوم کے اصل مجرم ہیں ،بلکہ اس ملک کے بھی غدار ہیں،ان سب کا بلا امتیاز نہ صرف احتساب ہو نا چاہئے ، بلکہ انہیں کیف کردار تک بھی پہنچانا چاہئے ، لیکن ان کا احتساب کون کر ے گااور انہیں کٹہرے میں لائے گا؟اس حمام میں تو سارے ہی ایک دوسرے کے سامنے ننگے اور ایک دوسرے کے کانے ہیں، ان کا احتساب کوئی اور نہیں، ایک دن عوام خود ہی کر یں گے ، انہیں اِن کے انجام تک پہنچائیں گے اور بھکاری پن سے نکل کر خود دار قوم بننے کی طرف قدم بڑھا ئیں گے۔