مفاہمت کی سیاست ہی وقت کا تقاضا ہے !
پاکستان کے آئین میںہر شہری کو آزادی اظہار کا حق دیا گیا ہے، لیکن آزادی اظہار کی آڑ لے کر اداروں کو نشانہ بنانے،کسی کی کردار کشی کرنے،کسی کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کی اجازت ہے نہ ہی اس قانون کی آڑ میں کسی کو آزادی اظہار دبانے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے ،
اس کے باوجود دونوں ہی کام بڑے ز ور شور سے ہورہے ہیں ،ایک طرف اپوزیشن تنقید و احتجاج بڑھائے جارہی ہے تو دوسری جانب حکومت ان کے خلاف نئے مقدمارت بنائے جارہی ہے ،اس صورتحال میں مفاہمت کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے نہ ہی ان سب کو ایک مذاکرات کے میز پر بیٹھایا جاسکتا ہے ، لیکن اس ملک کے جب تک سٹیک ہو لڈراکھٹے ہو کر نہیں بیٹھیں گے ، ملک میں استحکام آئے گا نہ ہی ملک آگے بڑھ پائے گا۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست ہی وقت کا تقاضا ہے ،اس کے باوجود ڈائیلاگ کرپارہے ہیں نہ ہی مل بیٹھ پارہے ہیں، اس پروزیر اعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی بڑی وجہ بانی پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہی نہیں ہیں، اگرعمران خان ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوجاتے تو سارے معاملات حل ہو سکتے تھے، ڈی جی آئی ایس پی آر بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیںکہ سیاسی جماعتوں کو آپس میں مل بیٹھ کر بات کرنی چاہئے،
جبکہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی و مرکزی رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ حکومت ایک طرف مزاکرات لی باتیں کرتی ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے خلاف فسطائیت جاری رکھے ہوئے ہے، تحریک انصاف کے دفا تر کو توڑا جارہا ہے ا ور قیادت و کارکنان کو پابند سلاسل رکھا جا رہا ہے، یہ تحریک انصاف کے خلاف جتنے مر ضی کیسز جتنے مرضی بنالیں، اُلٹا ان کے ہی گلے پڑ یں گے اس قسم کے حربوں سے ڈریں گے نہ ہی پیچھے ہٹیں گے۔اگر دیکھاجائے تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اپنے مفادات اور اپنے خدشات پائے جاتے ہیں ،حزب اقتدار ڈائیلاگ کی باتیں بہت کرتے ہیں ،
مگر ڈائیلاگ کرنا نہیں چاہتے ہیں ،کیو نکہ ڈائیلاگ کے بعد ان کے پاس اقتدار نہیں رہے گا ،جبکہ حزب اختلاف بھی اتحادی حکومت سے ڈائیلا گ کیلئے تیار نہیں ہے ، کیونکہ اپوزیشن جانتی ہے کہ حکومت بے اختیار ہے ، اس کے پاس دینے کیلئے کچھ ہے نہ ہی اس سے کچھ لیا جاسکتا ہے ، اس لیے طاقتور حلقوں سے بات کر نے کو تر جیح دی جارہی ہے ، جبکہ طاقتور حلقے ڈائیلاگ کیلئے تیار ہیں نہ ہی اپوزیشن کو کچھ دینے کے خواہاں ہیں ، اس لیے ایک دوسرے پر دبائو بڑھانے کے حربے آزمائے جارہے ہیں
،اس حربہ آزمائی میں ملک کا استحکام اور عوام کی خوش حالی دائو پر لگی ہوئی ہے ،لیکن ملک و عوام کسی کی تر جیحات میں شامل ہی نہیں ہیں ۔اس ملک میں ہر کوئی اپنے مفادات اور اپنی اَنائیںقومی مفاد پر قربان کر نے کی باتیں بہت کرتے ہیں ، لیکن عملی طور پر سب ہی اپنے مفادات اور اپنی انائوں کے ہی اسیر رہے ہیں ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک سیاسی ومعاشی استحکام آرہا ہے نہ ہی عوام کی بے یقینی اور مایوسی دور ہو رہی ہے
، عوام میں نا اُ میدی بڑھتی ہی جارہی ہے ،اس نا اُمیدی کو اُمید میں بدلنے کیلئے اعلی عہدیدارون کو اپنا مثبت کردار ادا کر نا چاہئے ،لیکن سیاسی و غیر سیاسی عہدیداراپنے عہدے انجوئے کر نے میں اتنے مگن ہیں کہ انہیںملک میں عدم استحکام بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے نہ ہی عوام کی بے چینی نظر آرہی ہے ، سیاست میں آصف علی زرداری کو مرد مفاہمت سمجھا جاتا رہا ہے اور میاں نواز شریف کو ایک تجزبہ کار زیرک سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے ،لیکن مرد مفاہمت نے کوئی اپنی کارا گری دکھائی نہ ہی زیرک سیاستدان کو ئی سیاسی تدبیر آزما پائے ہیں ، جبکہ طاقتور حلقوں کی ایک ہی ضد ہے کہ بات کریں گے
نہ ہی بات کرائیں گے تو پھر الجے معاملات کیسے سلجھ پائیں گے ؟اس وقت ملک کسی سیاسی عدم استحکام کا متحمل ہو سکتا ہے نہ ہی کسی انتشار کا سامنا کر سکتا ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ سارے ہی سٹیک ہو لڈر مل بیٹھ کر سارے معاملات طے کریں کہ تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں گے
اور اہل سیاست کو ان کا کام کرنے دیں گے ، اہل سیاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کو اپنے معاملات مین مداخلت کی دعوت دینے کے بجائے باہم بات چیت سے ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنائیںاور ماضی کی سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے نیا آغاز کریں ،مفاہمت کی سیاست میں ہی سب کی بہتری ہے ، بصورت دیگر کچھ بچے گا نہ ہی کسی کے ہاتھ کچھ آئے گا ،دبے قدموں کی آہٹ بتارہی ہے کہ آنے والے سب کچھ ہی چھین کر لے جائیں گےا