کوئی عوام سے بھی تو پو چھے !
ملک ایک کے بعدایک بحران سے دوچار ہے اور حکومتی قیادت نویدیں سنائے جارہی ہے کہ معیشت بحال ہورہی ہے، مہنگائی میں کمی آرہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں،عوام میں مایوسی ناامیدی کی دھند چھٹنے لگی ہے، چارسومطلع صاف ہورہا ہے،عوام کی زندگی میں تبدیلی آرہی ہے توپھر بحران کہاں ہے؟ حکومت کو بحران نظر ہی نہیں آرہے ہیں ،حکومت کیلئے سب کچھ ہی اچھا ہے ،
جبکہ عوام بڑھتے مسائل کے بوجھ تلے دبے چلائے جارہے ہیں ،کوئی عوام سے بھی تو پوچھے ، کوئی عوام کا بھی حال جانے ، لیکن حکومت کو بے بس عوام کی آہو بکاسنائی دیے رہی ہے ناہی حکومت کی تر جیحات میں کہیں عوام دکھائی دیے رہے ہیں ، حکومت کی تر جیحات میں اپنے اقتدار کو دوام دینا اور خود کو عوام کے احتساب سے بچانا ہی رہ گیا ہے۔
اتحادی حکومت دوسری مرتبہ عوام کو رلیف دینے اور عوام کے مسائل کے تدارک کے وعدئوں کے ساتھ آئے تھے ،مگر اس حکومت کی قیادت کے وعدے کبھی پہلے پورے ہوئے نہ ہی اس بار پورے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اُلٹا عوام کے مسائل بڑھائے ہی جارہے ہیں ، عوام کو رلیف دینے کے بجائے عوام سے ہر رلیف چھینا جارہا ہے ،آئے روز بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے
، ایک کے بعد ایک نیا ٹیکس غریب عوام پر لگایا جارہا ہے ، اگر عوام بجلی کے اضافی بوجھ اور لوڈ شیدنگ سے بچنے کیلئے سولر تونائی پر گئے تو اس پر بھی ٹیکس لگایا جارہا ہے ، عوام کو سکھ کا سانس لینے دیا جارہا ہے نہ ہی کسی آسانی کے ساتھ جینے دیا جارہا ہے ، عوام سے سب کچھ چھینے کے بعد بھی دعوئے کئے جارہے ہیں کہ بے یقینی اور نااُمیدی کے بادل چھٹ رہے ہیں ، ہم استحکام و خوشحالی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
یہ اتحادی حکومت ایک طرف قر ض پر قرض لیے جا رہی ہے تو دوسری جانب عوام کو خوش کر نے کیلئے بتائے جارہی ہے کہ ہم کشکول توڑکر سر مایہ کاری کو فروغ دیے رہے ہیں ،چین ،ایران سے لے کر سعودی عرب اور عرب امارات پا کستان میں بڑی سر مایہ کاری کر نے کیلئے بے قرار ہیں ، اس سے پہلے بھی ان ممالک سے وفود آتے رہے ہیں اور معاہدے ہوتے دکھائے جاتے رہے ہیں ، لیکن ملک معاشی بحران سے نکلا نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لائی جاسکی ہے ، یہ آزمائی قیادت اپنے ہر دور اقتدار میں نمائشی اقدامات دکھانے کے علاوہ کبھی کچھ کر پائی ہے نہ ہی اس بار کچھ کرتی دکھائی دیے رہی ہے ، اس ملک میں عدم استحکام اور عدم امن کے ہوتے اول کوئی سر مایہ کاری نہیں کرے گا ، اگر کوئی کرتا ہے تو اس کا فائدہ عوام کے بجائے حکمران اشرافیہ ہی اُٹھائیں گے ،جیسا کہ آج تک اُٹھاتے آئے ہیں ، عوام کی قسمت میں ماسوائے قرضوں کا بوجھ اُٹھانے اور غلامانہ زندگی گزارنے کے کچھ بھی نہیں ہے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اس ملک میں بار بار آزمائے کو ہی لایا جارہا ہے اور عوام سے زبر دستی منوایا جارہا ہے کہ یہ آزمائے ہوئے ہی ملک عوام کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے ، انہوں نے اپنی پہلی چار باریوں میں کچھ کیا ہے جو کہ اس بار کر یں گے ، اس اتحادی قیادت میں اہلیت ہے نہ ہی صلاحیت ر کھتے ہیں کہ ملک کو در پیش بحرانوں سے نکال پائیں گے ، ایک بار پھر پرانے آزمائے فارمولے کے تحت طاقتور حلقے ہی ملک کو در پیش بحرانوں سے نکالنے میں سر گر داں ہیں اوراس کا کر یڈٹ اتحادی قیادت لینے میں کو شاں ہے ، یہ آزمایا فار مولا پہلے کامیاب ہو پایا نہ اس بار ہو پائے گا ،اہل سیاست کو اپناکام اور اہل ریاست کو اپنا کام ہی بھاتا ہے ، یہ جب اپنے دائرے سے باہر نکلتے ہیں اور ہر فن مولا بن کر سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں ، اس لیے ہر ایک کو اپنا کام اپنے ہی دائرے میں رہتہو ئے کر نا چاہئے ،اور اس کا جوابدہ بھی ہو نا چاہئے، اس کے بعد عوام کو فیصلہ کر نے دینا چاہئے کہ عوام کس پر اعتماد کرتے ہیں ،لیکن یہاں پر عوام کے فیصلے کو سر عام اپنے پائوں تلے روندا جارہا ہے ، عوام کے فیصلے کو مانا ہی نہیں جارہا ہے ۔
اس ملک میں اہل سیاست یا اہل ریاست سارے ہی طاقت کا سر چشمہ عوام کو کہتے ہیں ، لیکن خود طاقتور بن کر عوام مخالف فیصلے کررہے ہیں ، عوام کو مجبور کیا جارہا ہے کہ نہ صرف اپنے مخالف فیصلے مانیں، بلکہ ان پر بلا چوں چاں عمل بھی کریں ، ان فیصلوں میں عوام کہیںہوتے ہیںنہ ہی عوام کی مشاورت شامل ہوتی ہے ،یہ بند کمروں کے فیصلے کل عوام سے منوائے جاتے رہے اور آج بھی منوائے جارہے ہیں،اتحادی قیادت سب کچھ کررہی ہے ،جوکہ اس کے لانے والے چاہتے ہیں ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کررہی ہے ،جو کہ عوام چاہتے ہیں ،عوام سیاسی و معاشی استحکام چاہتے ہیں ، آئین کی بلادستی اور اچھی گورنس چاہتے ہیں ، ووٹ کی عزت اور اپنے حق رائے دہی کا احترام چاہتے ہیں ، اپنی پسند کی قیادت کو ہی اقتدار دینا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک عوامی قیادت ہی ملک و عوام کودرپیش بھنور سے نکال پائے گی ۔
عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا جارہا ہے نہ ہی بدلتے حالات کا ادراک کیا جارہا ہے ، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، یہ صورتحال انتہائی تشویش کا باعث ہے ، اس کا جتنا جلد ادارک کر کے اپنے روئیوں میں تبدیلی لائی جائے گی ،اس میں ہی سب کی بہتری اور سب کے ہی مفاد میں ہے ، ریاست کے حکمراں طاقتوں حلقے کو اپنی ریاست کی خاطر اپنی حکمت عملی بد لینی چاہئے اورعوام کا اختیار اقتدار انہیں واپس لوٹادینا چاہئے، ریاست کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ اب عوامی مزاج کو سمجھا جائے ، عوام سے ہی پو چھا جائے اور اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں، غل اپنے ط فیصلوں سے جتنی جلد ممکن ہو سکے مراجعت کرلینی چاہیئے ، یہ ہی سب کے لئے دانائی کا راستہ ہے، بصورت دیگرنادانیوں کا تسلسل سب کو ہی لے ڈوبے گا۔