وقت ایک سا نہیں رہتا ہے !
اس بار مسلم لیگ (ن)حکومت نے یوم تکبیر کو بھی اپنے سیاسی مقصد کیلئے استعمال کر نے سے گریز نہیں کیا ہے ، ایک طرف اشتہاری مہم میں اپنی سیاسی تشہیر کی جاتی رہی ہے تو دوسری جانب قوم کو ایٹمی ہتھیاروں کا ’تحفہ‘ دینے کا سہرا اپنے ہی سر سجا تی رہی ہے، جبکہ ان کا کر دار ماسوائے ایٹمی بٹن پر ہاتھ رکھنے کے کچھ بھی نہیں رہا ہے ،اس کے باوجود حیرت ہے کہ اس قسم کے بلند بانگ دعوے کس بنیاد پر کیے جارہے ہیں، اس پرغور کیا جائے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ شہباز شریف حکومت انتہائی کمزور اور بے بس ہے،وہ اہم فیصلے کرنے میں بالکل ناکام ہے،ادارے خود مختاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور حکومتی قیادت مسلسل عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کبھی کوئی عذر تلاش کررہی ہے تو کبھی دوسروں کو مود الزام ٹہرائے جارہی ہے ،اس طرح مسلم لیگ( ن )حکومت زیادہ دیر چلاپائے گی نہ ہی پارٹی صدارت بدل کر اپنی ساکھ کے ساتھ سیاست بچا پائے گی۔
اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ( ن)کو عوام میں اپنی گرتی مقبولیت کا ادراک ہو چکا ہے ، اس لیے میانواز شریف کو سیاست میں ایک بار پھر متحرک کیا جارہا ہے ، ایک بار پھر پارٹی کا صدارت سے نوازا جارہا ہے اور سمجھا جارہا ہے کہ پارٹی صدارت ملنے کے بعد سے پارٹی ایک بار پھر مقبولیت کی انتہا پر پہنچ جائے گی ، یہ نوے ، دوہزار کی دہائی ہے نہ ہی عوام اتنے بے شعور رہے ہیں ،عوام سب کچھ جانتے ہیں کہ ملک کو نسے بحرانوں سے گزرہا ہے اور آزمائے حکمرانوں کے پاس ان بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت ہے نہ ہی ملک کو آگے لے جانے کی اہلیت رکھتے ہیں ،اس کے باوجود عوام کو اپنی رویتی سیاست سے ہی بہلانے اور بہکانے کی کوشش کی جارہی ہے ،جبکہ عوام اب روایتی انداز سیاست سے تنگ آچکے ہیں،عوام کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، لوگوں کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے،اس سے عوام کو ئی سر کار نہیں رہا ہے کہ کس نے کس کے ساتھ کیا کیا ہے ؟ کس نے کس کا ساتھ دیااورکون ذمہ دار ہے؟ یہ سب بار ہا سن کر لوگوں کے کان پک چکے ہیں، عوام اب کچھ زبانی کلامی سننا نہیں ، اپنے لیے عملی طور پر کچھ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔
پا کستانی عوام بڑھتی مہنگائی ، بھوک افلاس سے مرے جارہے ہیں اور آزمائے حکمرانوں کے اپنے ہی دھکڑے ختم ہو نے میں نہیں آرہے ہیں ، ایک بھائی کہتا ہے کہ مجھے کیوں نکلا گیا تو دوسرا کہتا ہے کہ مجھ سے ہاتھ نہیں ملایا گیا ، اس پر نئے گور نر پنجاب سر دار سیلم حیدر کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف وزیرا عظم اور بیٹی مریم نوازوزیر اعلی پنجاب بن چکی ہیں ، اگر ان کے ساتھ کبھی زیادتی ہوئی تھی تو اس کا اب ازالہ بھی ہو چکا ہے ، لہذا انہیں اب رونا دھونا بند کر دینا چاہئے ، میاں نواز شریف رونا دھونا بند کر نے والے ہیں نہ ہی اپنی زیادتی کا ازالہ ہونے پر خاموش بیٹھنے والے ہیں ،
کیو نکہ ان میں ہر چیز کی طلب اتنی ہے کہ ختم ہی نہیں ہو پا رہی ہے ، میا نواز شریف کو شکوئے شکایت کر نے کے بجائے اُن لو گوں کا شکر یہ ادا کرتے رہنا چاہئے کہ جنہوں نے واپسی کے راستے صاف کرائے، سارے مقدمات ختم کرائے اور الیکشن بھی فارم ستالیس کے ذریعے جتوایا ہے ،اگر فارم ستالیس کی مہر بانیاں نہ ہوتیں تو ڈاکٹر یاسمین راشد کے ہاتھوں پٹ گئے تھے ،لیکن دل کو تسکین کہاں سے آئے ، ان کے دل کو تسکین چوتھی بار وزیر اعظم بنے پربھی نہیں آئے گی ،کیو نکہ یہ رہتی زندگی تک وزیر اعظم ہی رہنا چاہتے ہیں۔
اس آزمائی قیادت کی ہزاروں خواہشات ایسی کہ ہر خواہش پر ہی دم نکلے ، لیکن ان کی خواہشات لاکھ چاہنے کے باوجود پوری ہوتی دکھائی نہیںدیے رہی ہیں ، میاں نواز شر یف پارٹی صدارت پر آکر کچھ بد ل پائیں گے نہ ہی پارٹی مقبولیت میں اضافہ کر پائیں گے ، کیو نکہ میاں نواز شریف ایک بار پھر نوئے کی دہائی کی آزمائی سیاست کر نے جارہے ہیں ، جبکہ دو ہرار چوبیس میں وقت و حالات بدل چکے ہیں ،لیکن میا نواز شریف ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ وقت کبھی رُکتا ہے نہ ہی ایک جیسا رہتا ہے ، کیا ہوا کہ انہیں ہر قسم کی آزادی مل رہی ہے اور جو چاہئے کررہے ہیں ،آج ان کے مخالف پا بند سلاسل ہیں ،
لیکن ہمیشہ پا بند سلاسل رہنے والے نہیں ہیں ، کیا اُن کے نام اور اُن کے اظہار خیال پر پابندی لگانے سے اُن کا نام مٹ گیا ، انہیں لوگ بھول گئے ہیں ، اُن کانام مٹا نہ ہی لوگ بھولے ہیں ،بلکہ اُن کی مقبولیت مزید بڑھتی ہی جارہی ہے ،یہ اُن کی بڑھتی مقبولیت کا ہی خوف ہے ،جو کہ آزمائی حکمران قیادت کے چہروں پر صاف دکھائی دیتا ہے ، یہ خوف انتقامی سیاست سے جائے گا نہ ہی اپنی نا ہلیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے سے ہلکا ہو پائے گا ، اس کیلئے ایک قدم پیچھے نہیں ، بہت پیچھے ہٹنا پڑے گا ، اصل حق دار کو اس کا حق دینا پڑے گا ، عوام کیا چاہتے ہیں ،عوام کا ہی فیصلہ بل آخر مانا ہی پڑے گا ،ورنہ عوام آج نہیں تو کل بزور طاقت اپنا فیصلہ منواہی لیں گے۔