اپنی غلطیوں سے کب سیکھیں گے!
ملک بھر میں مہنگائی کاطوفان بر پا ہے اور اس طوفان میں آئی ایم ایف کے بجٹ کے بعد مزید تیزی آنے والی ہے ،اس سے عام آدمی کی قوت خرید جو پہلے ہی جواب دے چکی ہے ،مزید بوجھ تلے دب جائے گی، اتحادی حکومت عوام دوست پالیسیوں کا پر چار کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات میں کمی لاکر اپنی ساکھ کسی حدتک بحال کر نا چاہتی ہے ،لیکن اس کی اپنی ہی بیروکریسی ساتھ نہیں دیے رہی ہے
، اگر وزیر اعظم پٹرول کی قیمت میں پندہ روپے چالیس پیسے کمی کی منظوری دیے رہے ہیںتو وزارت خزانہ چار روپے چو ہتر پیسے فی لیٹر کمی کا نو ٹی فکیشن جاری کررہے ہیں ، اس سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا وزیراعظم واقعی ملک کے معاملات پر قابو رکھتے ہیںیاکہ اس وقت بیوروکریسی ہی اصل حکمران ہے؟
یہ سب کچھ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے،اس سے پہلے بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے کہ جب بیوروکریسی اور منتخب حکومت کے درمیان تضاد سامنے آتا رہاہے اور بیورو کر یسی حکومت مخالف فیصلے کرتی رہی ہے ،اس کا مطلب ہے کہ بیوروکریسی آئی ایم ایف کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہے اور حکومت پر مالیاتی پالیسیوں کے حوالے سے دبائو ڈال سکتی ہے،یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ملک میں طاقت کا توازن کہیں اور ہے اور اتحادی حکومت کے پاس کوئی اختیار ہے
نہ ہی فیصلہ سازی کر سکتی ہے ، یہ ایک بے اختیار حکومت ہے اور فیصلے کہیں اور ہی ہورہے ہیں ،جبکہ ان فیصلوں کا سارا بوجھ اتحادی حکومت کے ناتواں کندھوں پر ڈالا جارہا ہے ۔یہ اتحادی حکومت کے ساتھ کوئی زور زبر دستی نہیں کیا جارہا ہے،بلکہ اس کی رضا مندی سے ہی سب کچھ ہورہا ہے ، لیکن اتحادی حکومت کے کھانے اور دکھانے کے دانت الگ ہیں ، حکومت جو کچھ بھی دکھارہی ہے اور جو کچھ کررہی ہے ، ایک دوسرے کے بالکل متضادہے ، اتحادی حکومت سمجھ رہی ہے
کہ اس طرح عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور عوام سے چھپایا جاسکتا ہے تو ایسا ہر گز نہیں ہے ، عوام سب کچھ جانتے ہیں ، عوام جانتے ہیں کہ اس حکومت کو لانے اور چلانے والے کون ہیں اور عوام مخالف فیصلے کہاں ہورہے ہیں ، اس میں اتحادی حکومت نہ صرف برابر کی شریک کار ہے ، بلکہ اس کے سارے منفی نتائج کی بھی ذمہ دار ہے ،اتحادی حکومت جتنا مرضی خود کو بچانے کی کوشش کرے اور اپنی ساکھ بحال کر نے کی کوشش کرتی رہے ، یہ خود کو بچاپائے گی نہ ہی اپنی ساکھ بحال کر پائے گی ۔
اس حکومت کو عوام کی حمایت حاصل رہی ہے نہ ہی اس حکومت کو عوام مانتے ہیں ، اس کے باوجود عوام کو زور زبر دستی مجبور کیا جارہا ہے کہ ان آزمائے لوگوں کو ہی مانیں اور ان سے ہی اُمید یں لگائیں ، لیکن اس بار عوام کسی ظلم و جبر کے سامنے جھکنے کیلئے تیار ہیں نہ ہی ان کے فیصلوں کو مان رہے ہیں ، عوام سراپہ احتجاج ہیں ، عوام باہر نکلنے کیلئے تیار ہیں ، عوام ایک نئی اُٹھتی تحریک کے ساتھ جڑنے لگے ہیں ،
اس کا احساس حکومت کو بھی ہو نے لگا ہے ، اس لیے مزاکرات کی دعوت دی جارہی ہے ، ایک میز پربیٹھنے کی بات کی جارہی ہے ، لیکن اپوزیشن جا نتی ہے کہ اس بے اختیار حکومت کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے ، اس لیے بات انہیںسے کر نی چاہئے کہ جن کے پاس اختیار ہے اور فیصلہ کر نے کے بھی مزاج ہیں، وہ ہی عوام کا چھینا مینڈیٹ واپس دلا سکتے ہیں اور عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار سونپ سکتے ہیں ۔
اتحادی حکومت کبھی نہیں چاہئے گی کہ اپوزیشن کے طاقتور حلقوں سے مذاکرات ہوں ،اس لیے اپوزیشن اور طاقتور حلقوں کے در میان اختلاف کو ہوا دی جارہی ہے ، جلتی پر پٹرول ڈالا جارہا ہے، ایک کے بعد ایک ایسا ایشو اُ ٹھایا جارہا ہے اور اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر جتیا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ طاقتور حلقے کروارہے ہیں ، جبکہ اس میں سب سے زیادہ کرادار حکومت کا اپنا رہا ہے ، کیو نکہ حکومت جانتی ہے کہ جس دن اپوزیشن کے طاقتور حلقوں سے مذاکرات ہوجا ئیں گے،انہیں جانا پڑے گا ،
اس لیے سارے حربے آزمائے جارہے ہیں کہ اپوزیشن اور طاقتور حلقوں کے مذاکرات نہ ہو نے پائیں ، لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے ، آج نہیں تو کل ،مزاکرات کر نا ہی پڑیں گے ، مذاکرات ہوں گے تو ہی بات آگے بڑھے گی اور معاملات بھی آگے چلیں گے ،ورنہ حالات مزید بگڑتے ہی جائیں گے ۔
یہ وقت انتشار پھلانے کا ہے نہ سیاسی انتقام لینے کا ہے نہ ہی اپنی غلطیاں دہرانے کا ہے ،یہ وقت افہام تفہیم کا ہے ، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا ہے، اس ملک کے تمام سٹیک ہو لڈرز کو مل بیٹھ کر سو چنا ہو گا، ملک کے تیزی سے بدلتے حالات کا ادارک کرتے ہوئے اپنے رو ئیوں کو بدلنا ہو گا ،اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گاور باہمی مشاورت سے فیصلہ کر نا ہو گا کہ اس بھنور سے مل کر کیسے ملک وعوام کو نکلنا ہے ، یہ وقتی فیصلے اور بغیر کسی ٹھوس معاشی پالیسیاںکبھی دوررس نتائج دے سکتی ہیں نہ ہی عوام کی حمایت د لا سکتی ہیں ،عوام کی حمایت عوام کا فیصلہ ماننے اور اس کا احترام کرنے سے ہی حاصل کی جا سکے گی ۔