125

ہپنوسز کے بارے میں کچھ اہم معلومات

ہپنوسز کے بارے میں کچھ اہم معلومات

تحریر: ڈاکٹر معین اسلم

جس ہپناٹزم سے ہماری اکثریت واقف ہے ،وہ بڑی حد تک سنیما کی تصویر کشی سے ماخوذ ہے۔ سحر زدہ فرد آسانی سے پراسرار ہپناٹسٹ کی انکھوں میں دیکھ کر اس کا اثیر ہوجاتا ہے۔
جھولتے پنڈولم ، مسحور کن آواز کی تاثیر سے کسی کا قابو میں آجانا اور اپنی رقم اس کے حوالے کردینا حسین دوشیزہ کا بانہوں میں آجانا اس قسم کے مناظرجو ہمارے ذہنوں کو موہ لیتے ہیں افسانے کے دائرے تک ہی محدود ہے۔ ہپناٹزم کے بارے میں سچائی اس طرح کی عکاسی سے بالاتر ہےاور ہپناٹزم کوئی جادوئی گولی نہیں ہے یہ ایک علم ہے جس کو مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

لفظ “hypnosis” یونانی لفظ “hypnos” سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے “نیند”۔ Hypnos نیند کا یونانی دیوتا تھا جس سے یہ موسوم ہے، اور” ہپناسس” کی اصطلاح 19ویں صدی میں ایک سکاٹش سرجن جیمز بریڈ نے وضع کی تھی، جس نے نیند سے مشابہت بدلے ہوئے شعور کی حالت کو نیند کے دیوتا Hypnos کی نسبت سے ہپناسس کی اصطلاح استعمال کی۔

ہپناٹزم کیا ہے؟

ہپناٹزم، جسے ہپناسس بھی کہا جاتا ہے، شعور کی ایک حالت ہے جس میں کسی شخص کی طرف توجہ مرکوز کرکے اس کے دماغ کو اس کی مرضی سے اس حالت میں لایا جاتا ہے جہاں اس کا شعور ،لاشعور تک رسائی میں مزاہمت نہ کریں۔ یہ ایک علاج کی تکنیک ہے جو آرام، توجہ اور ارتکاز کو فروغ دینے اور خیالات، احساسات اور طرز عمل میں تبدیلیوں کو آسان بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

اس کو اس طرح سے سمجھیں کہ جب بھی آپ کی لاجک اور آپ کی امیجینیشن کا آپس میں ٹکراو ہوگا تو ہمیشہ آپ کی امیجینیشن ہی حاوی ہوگی اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ آپ کو ایک تختہ پر سائکل چلانے کا کہا جائے تو آپ آسانی سے اس پر سائکل چلا سکتے ہیں کیوں کے لاجک آپ کو بتا رہی ہیں کہ تختہ اتنا چوڑا ہے کہ آپ آسانی سے سائکل اس پر سے گزار سکتے ہیں۔
لیکن وہ ہی تختہ دو بلڈنگ کے درمیان رکھ دیا جائے تو آپ میں سے کون اس پر سائکل چلائے گا آپ ڈر جائینگے ایسا کیوں ہوتا ہے؟

لاجک تو بتا رہی ہے کہ تختہ چوڑا ہے با آسانی اس پر سے سائکل چل سکتی ہے لیکن آپ کی امیجینیشن آپ کو بتارہی ہے کہ آپ گر سکتے ہیں،خوف آپ کے دماغ میں آپ کے گرنے کی آپ کے مرنے کی زخمی ہونے کی تصاویر بنادیگا اور آپ اس عمل سے رک جائینگے ایسا ہی ہپناسس میں ہوتا ہے آپ کی امیجینیشن تبدیل کردی جاتی ہے کسی بھی چیز کے بارے میں جس کی مدد سے آپ کوئی بھی مشکل حدف حاصل کرسکتے ہیں۔

امیریکن تنظیم امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA) کہا جاتا ہے، جو ریاستہائے متحدہ میں ماہرین نفسیات کے لیے ایک کلب کی طرح ہے۔ اس کے 146,000 سے زیادہ اراکین ہیں، جن میں سائنسدان، اساتذہ، ڈاکٹر، معالج اور طلباء شامل ہیں۔ اے پی اے کے مختلف گروپ ہیں جنہیں ڈویژن کہتے ہیں، اور ان میں سے ایک ڈویژن 30 ہے، جو نفسیاتی ہپناسس پر مرکوز ہے۔ لہذا، 2005 میں، انہوں نے تعلیمی نفسیات کی مدد سے ہپناسس کی ایک خاص تعریف وضع کی ہے۔

یہ ایک ایسا عمل ہے جہاں کسی کو اپنے تخیل کو ایک خاص طریقے سے استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ عام طور پر ایک تعارف کے ساتھ شروع ہوتا ہے جہاں اس شخص کو بتایا جاتا ہے کہ ان سے کچھ تخلیقی تجربات کرنے کو کہا جائے گا۔ اس تعارف کو ہپنوٹک انڈکشن Hypnotic-Induction” “کہا جاتا ہے، اور یہ شخص کو اپنے تخیل کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہونے میں مدد کرتا ہے۔

عام غلط فہمیوں کے برعکس، ہپناسس دماغ پر قابو پانے کی کوئی تکنیک نہیں ہے جہاں ہپناٹسٹ کسی بھی شخص کے دماغ پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔ ہپناٹائز ہونے والا شخص اپنی آزاد مرضی کو برقرار رکھتا ہے اور تجاویز کو قبول یا مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے یعنی اگر آپ اس کو کوئی ایسی بات کہیں جو اخلاقیات اور اس شخص کی مرضی کے خلاف ہو تو وہ اس پر عمل نہیں کریگا۔ یہ ہپناٹسٹ اور ہپناٹائز ہونے والے فرد کے درمیان تعاون پر مبنی عمل ہے۔

ہپناسس کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ درد کے احساس کو ختم کرنا، اضطراب کو کم کرنا، فوبیا پر قابو پانا، کارکردگی کو بڑھانا، اور رویے میں ترمیم میں مدد کرنا،سگریٹ نوشی ترق کرنا، وزن کم کرنا۔
اسے تفریحی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ اسٹیج ہپناسس کے شوز جس میں کوئی بھی شخص پبلک میں سے بلا کر جو اس کا ہی ٹرین بندہ ہوتا ہے چٹکی بجا کر بے ہوش کردیتا ہے۔
یہ یاد رکھیں کہ ہر کوئی ہپناسس کے لیے یکساں طور پر حساس یا موزوں نہیں ہوتا بعض افراد پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ہپناسس کو عام طور پر محفوظ سمجھا جاتا ہے اگر ماہر ہی اس کا استعمال کریں، لیکن اگر آپ علاج کے مقاصد کے لیے ہپناسس کو استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں تو کسی قابل اور مستند ہپنوتھراپسٹ کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہے۔

ہپناٹزم کی تاریخ

ہپناٹزم کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جس کی جڑیں قدیم مصر کے سلیپنگ ٹیمپل ،یونان اور چین تک جاتی ہیں۔
نیند کے مندروں کو امہوٹپ کے زیر اثر 4000 سال پہلے ہپناسس کی ابتدائی دور کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
Imhotep قدیم مصر میں ایک اہم تاریخی شخص تھا، کیونکہ اس کے زمانے کی تحریریں اور ڈرائنگ موجود ہیں جو اس کے بارے میں شواہد فراہم کرتی ہیں۔وہ جوسر نامی فرعون کے لیے کام کرتا تھا اور ایک خاص قسم کا اہرام بنانے میں اس کا اہم کردار تھا ،جسے Pyramid of Djoser کہتے ہیں۔ وہ بہت ذہین تھا اور شاید عمارتوں میں پتھر کے کالم استعمال کرنے والا پہلا شخص تھا۔
نیند کے مندروں میں، مریضوں کو سونے کے لیے ایک اندھیرے چیمبرمیں لے جایا جاتا تھا اور ان کی مخصوص بیماری کا علاج کیا جاتا تھا۔ علاج میں منتر کرنا، مریض کو ٹرانس جیسی یا ہپنوٹک حالت میں رکھنا، اور علاج کا تعین کرنے کے لیے ان کے خوابوں کا تجزیہ کرنا شامل تھا۔ مراقبہ، روزہ، غسل، اور سرپرست دیوتا یا دیگر روحوں کے لیے قربانیاں بھی اکثر شامل ہوتی تھیں, ایک نیند کا مندر J.R.R ٹولکین!نامی ایک مشہور مصنف جس نے ہابٹ اور لارڈ آف دا رنگ جیسے شہرہ آفاق ناول لکھے جس پر بعد میں ہالی وڈ میں فلم بھی بنی نے بھی دریافت کیا تھا۔

قدیم مصر میں نیند کے مندروں کا استعمال اس عقیدے پر مبنی تھا کہ خواب دیوتاؤں کے پیغامات ہوتے ہیں، مریض کے خوابوں کا تجزیہ کرکے، نیند کے مندر کے پجاری مریض کی بیماری کے بارے میں بصیرت حاصل کرتے اور مناسب علاج تجویز کرتے تھے۔

یونانیوں کا خیال تھا کہ وہ خاص خواب دیکھ کر مدد حاصل کر سکتے ہیں اور بہتر محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ مندروں جیسی اہم جگہوں پر جا کر سوتے یا وہاں گہرائی سے سوچتے ان کا عقیدہ تھا کہ یہاں آکر سونے سے انہیں ایسے خواب آئینگے جو انہیں ان کے مسائل کے حوالے سے مشورہ دینگے۔

بہت سی ثقافتوں میں، مقامی امریکیوں، افریقیوں، اور ایبوریجنلز کی طرح، خاص لوگ جنہیں شمن کہا جاتا ہے مرد/خواتین دماغ کی مختلف حالتوں میں جانے کے لیے خصوصی رسومات استعمال کرتے تھے اور وہ یہ عمل لوگوں کو شفا دینے، روحوں سے بات کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کیا کرتے تھے۔

18ویں صدی:

فرانز اینٹون میسمر، ایک آسٹریا کے معالج، کو جدید ہپناٹزم کا بانی کہا جاتا ہے۔ 18ویں صدی کے آخر میں، انھوں نے ایک نظریہ تیار کیا جسے “جانوروں کی مقناطیسیت” Animal Magnitism یا “mesmerism” کہا جاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جسم کے اندر مقناطیسی سیال موجود ہے اور اسے صحت کی بحالی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میسمر کی تکنیکوں میں ہاتھ کا استعمال اور مریضوں میں ٹرانس جیسی حالت پیدا کرنے کے لیے میگنٹ کا استعمال شامل تھا۔
وہ لوگوں کا انفرادی طور پر علاج کرتا تو وہ ان کے سامنے بیٹھ جاتا اور ان کے انگوٹھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتا۔ وہ ان کی آنکھوں میں جھانکتا اور ہاتھ کی خاص حرکت کرتا، جیسے اپنے ہاتھ ان کے کندھوں پر اور ان کے بازوؤں کے نیچے۔ کبھی کبھی، وہ ان کے پیٹ پر دیر تک دباو بنائے رکھتا۔
ان علاجوں کے دوران، مریضوں کو اکثر عجیب سی سنسنی محسوس ہوتی تھی جو اس بات کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی تھی کہ وہ بہتر ہو رہے ہیں۔ علاج کو ختم کرنے کے لیے، میسمر ایک خاص آلے پر موسیقی بجاتا تھا جسے گلاس ہارمونیکا کہتے ہیں۔

19ویں صدی کے دوران، کئی بااثر شخصیات نے ہپناٹزم کے اسرار کو کھولنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جیمز بریڈ، سکاٹ لینڈ کے ایک ماہر سرجن نے جانوروں کی مقناطیسیت کے تصور کو رد کیا اور “ہپناٹزم” کی اصطلاح متعارف کرائی۔ بریڈ کا خیال تھا کہ یہ حالت نیند سے مشابہت رکھتی ہے۔

جین مارٹن چارکوٹ: ایک مشہور فرانسیسی ڈاکٹر نے ہپناٹزم کو ہسٹیریا میں مبتلا افراد کے علاج کےلئےاستعمال کرنے کا تجربی کیا جو کامیاب رہا۔ اس کے اہم کام نے یہ ظاہر کیا کہ ہپناٹزم ایک حقیقی طبی علاج ہوسکتا ہے اور اس کی تحقیقات نےاس شعبے کی ایک ممتاز شخصیت سگمنڈ فرائیڈ پر دیرپا اثر چھوڑا۔

فرائیڈ نے ابتدائی طور پر اپنی طبی مشق میں ہپناٹزم کا استعمال کیا لیکن آخر کار اس نے اپنی توجہ دوسرے علاج کے طریقوں کی طرف موڑ دی۔ اس کے باوجود، اس نے لاشعوری ذہن کے گہرے اثر اور تجویز کی طاقت کو تسلیم کیا، ان دونوں نے ہپنوتھراپی کی نشوونما پر دیرپا تاثر چھوڑا۔

20 ویں صدی میں ملٹن ایچ ایرکسن نامی ایک امریکی ماہر نفسیات نے اس شعبے میں قابل ذکر خدمات انجام دیں۔ ایرکسن نے ایسی اختراعی تکنیکیں متعارف کروائیں جو ہپناٹزم کو ہر فرد کے منفرد ذہن کے مطابق بناتی ہیں وہ خصوصی طور پر تجاویز اور کہانی سنانے کے فن پر زور دیتے تھے۔

1955 میں برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن (BMA) نے ہپناٹزم کو ایک درست علاج معالجے کے طور پر تسلیم کیا۔ ایک معزز طبی تنظیم کی طرف سے اس توثیق نے طبی برادری میں ہپناٹزم کی قبولیت کو مستحکم کیا اور اس کی ساکھ میں اضافہ کیا۔

ان اہم شخصیات نے، دوسروں کے درمیان، سمجھ، قبولیت، اور ہپناٹزم میں استعمال ہونے والی تکنیکوں کو تشکیل دیا اور انھیں سائنسی بنیادوں پر استوار کیا ان کے تعاون نے ہپناسس کو ایک درست علاج کے طریقے کے طور پر قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور نفسیات اور سائیکو تھراپی کے شعبوں کو ترقی دی آج، ہپناسس پر جو بھی تحقیق اور پیشرفت ہورہی ہے ان بااثر شخصیات کی تحقیقات کی بنیاد پر استوار ہے۔

ہپناسس کے ابتدائی دنوں میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ہپناسس نیند یا بے ہوشی کی حالت ہے۔ تاہم، جیمز بریڈ نے استدلال کیا کہ ہپناسس ایک ایسی زہنی حالت ہے جس میں آپ مریض کو باآسانی سجیشن دے کر اس کی سوچ کو الگ رخ دے سکتے ہیں ۔ اس خیال کی تائید تحقیق سے ہوئی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ہپناٹسٹ کی حالت میں لوگوں کے ہپناٹسٹ کی تجاویز کو قبول کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
بہت سی مختلف تکنیکیں ہیں جو ہپناسس کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں جن میں ہپناٹسٹ مریض کی آنکھوں میں گھورتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنی انگلی کو آگے پیچھے کرتا ہے،اس سے مریض کی توجہ مرکوز کرنے اور ہپنوٹک حالت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ہپناٹسٹ مریض کو اپنے پٹھوں کو آرام کرنے کی ہدایت کرتا ہے، ان کی انگلیوں سے شروع ہو کر سر تک کام کرتا ہے۔ اس سے اضطراب کو کم کرنے اور پر سکون حالت کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔

ہپناسس کے بہت سے مختلف انداز ہیں، جن میں سے ہر ایک کا اپنا الگ طریقہ ہے۔
کلاسیکی ہپناسس: کلاسیکی ہپناسس ہپناسس کا قدیم ترین انداز ہے۔ یہ اس خیال پر مبنی ہے کہ ہپناسس نیند یا بے ہوشی کی حالت ہے۔

Ericksonian hypnosis کا زیادہ جدید انداز ہے۔ یہ اس خیال پر مبنی ہے کہ لوگوں کو ان کی آگاہی کے بغیر ہیپناٹائز کیا جا سکتا ہے۔

ایرکسن کے نقطہ نظر میں اکثر بالواسطہ تجاویز، استعارے، کہانیاں اور کہانیوں کا استعمال شامل ہوتا ہےھ تاکہ شعوری مزاحمت کو نظرانداز کیا جا سکے اور مؤکل کے لاشعوری ذہن سے بات چیت کی جا سکے اس کا یہ طریقہ کار بہت معروف رہا

نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ (NLP): NLP میں ایک خاص قسم کا ہپناسس کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جو اس خیال پر مبنی ہے کہ ہمارے خیالات، زبان اور طرز عمل سبھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ NLP کا استعمال لوگوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ان کے خیالات اور طرز عمل کو تبدیل کرنے میں مدد کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ویسے نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ خد ایک بہت بڑا سبجیکٹ ہے جس پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہے اس پر کسی اگلے مضمون میں تفصیلی گفتگوں کرونگا ان شاءاللہ۔

شعور اور لاشعور دماغ

شعور ذہن کا وہ حصہ ہے جو اپنے آپ اور اپنے اردگرد کے حالات سے آگاہ ہے۔ یہ ہمارے خیالات، احساسات اور اعمال کے لیے ذمہ دار ہے۔ لاشعوری ذہن دماغ کا وہ حصہ ہے جو خود یا اپنے اردگرد کے بارے میں نہیں جانتا۔ یہ ہمارے خودکار طرز عمل، جیسے سانس لینے اور دل کی دھڑکن کے لیے ذمہ دار ہے۔
شعور ایک برفانی تودے کے سرے کی طرح ہے۔ یہ دماغ کا صرف ایک چھوٹا حصہ ہے، لیکن یہ وہ حصہ ہے جس سے ہم سب سے زیادہ واقف ہیں۔ لاشعوری ذہن باقی آئس برگ کی طرح ہے۔ یہ شعوری ذہن سے بہت بڑا ہے، لیکن ہم اس سے واقف نہیں ہیں۔

شعور اور لاشعوری ذہن ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل تعامل کر رہے ہیں۔ شعور لاشعور کو متاثر کر سکتا ہے، اور لاشعوری ذہن شعوری ذہن کو متاثر کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم شعوری طور پر کوئی نیا ہنر سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو لاشعوری ذہن ہمارے پریکٹس سیشنز کی یادوں کو محفوظ کر کے ہماری مدد کر سکتا ہے۔

دوسری طرف، لاشعوری ذہن (جسے لاشعوری دماغ بھی کہا جاتا ہے) سے مراد وہ ذہنی عمل اور معلومات ہیں جو فی الحال شعوری بیداری کے دائرے میں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہمارے خیالات، احساسات اور طرز عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ اس میں مختلف خودکار عمل، یادیں، جذبات، عقائد اور خواہشات شامل ہیں جو شعوری بیداری کی سطح کے نیچے محفوظ ہیں۔ لاشعوری ذہن اکثر وجدان، تخلیقی صلاحیتوں، جذبات، عادات اور خودکار ردعمل سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ ہماری شعوری کوشش کے بغیر کام کرتا ہے اور ہمارے اعمال اور تجربات کو لطیف طریقوں سے متاثر کر سکتا ہے۔

ہپناسس کا استعمال لوگوں کو نئی عادات پیدا کرنے اور پرانی عادات کوچھوڑنے میں مدد دے کر ان کے رویے کو تبدیل کرنے میں مدد کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

ہپنوسس کا استعمال لوگوں کو مختلف شعبوں میں ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے لیے بھی کیا ھاتا ہے ، بشمول کھیل، ماہرین تعلیم، اور عوامی تقریر کا فن۔

ہپناسس مختلف حالات کے لیے ایک محفوظ اور موثر علاج ہے۔ تاہم، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ہپناسس ایک مکمل علاج نہیں ہے۔ یہ سب کے لیے مؤثر نہیں ہے، اور یہ ہمیشہ کسی خاص حالت کے لیے بہترین علاج نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ ہپناسس کروانے پر غور کر رہے ہیں، تو یہ دیکھنے کے لیے اپنے ڈاکٹر یا کسی قابل ہپنوتھراپسٹ سے بات کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ آپ کے لیے صحیح ہے۔

محققین نے دماغ کی سکیننگ کی خصوصی تکنیکوں کو یہ دیکھنے کے لیے استعمال کیا ہے کہ ہپناسس کے دوران دماغ میں کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا ہے کہ ہپناسس اس بات کو تبدیل کر سکتا ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے اور دماغ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے کس طرح بات چیت کرتے ہیں۔ یہ ہماری توجہ، ادراک (ہم چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں)، اور ہم اپنے بارے میں کیسے سوچتے ہیں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہپناسس میں مخصوص طریقے شامل ہوتے ہیں جو ہمارے دماغ سوچتے اور کام کرتے ہیں۔

سائنسدانوں نے مخصوص چیزوں کا بھی مطالعہ کیا ہے جو ہپناسس کے دوران ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، انہوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح ہپناسس درد کو کم کر سکتا ہے یا لوگوں کو زیادہ تجویز کرنے والا بنا سکتا ہے (جس کا مطلب ہے کہ وہ مندرجہ ذیل ہدایات کے لیے زیادہ تیار ہیں)۔ ان مطالعات نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ ہپناسس واقعی کام کرتا ہے۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ ہپناسس یہ بدل سکتا ہے کہ ہم کس طرح چیزوں کا تجربہ کرتے ہیں، انہیں یاد رکھتے ہیں، اور یہاں تک کہ ہمارا برتاؤ کیسے ہوتا ہے۔ ان تبدیلیوں کو سائنسی طریقوں سے ماپا اور ثابت کیا جا سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ سائنس دانوں نے ہپناسس کو سمجھنے کے لیے کافی تحقیق کی ہے۔ انہوں نے محسوس کیا ہے کہ یہ تھراپی کے لیے مفید ہو سکتا ہے، یہ ہمارے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کرتا ہے، اور یہ ہمارے تجربات اور طرز عمل میں مخصوص تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم، سائنس دانوں کے درمیان ہپناٹزم کے بعض پہلوؤں کے بارے میں اب بھی کچھ بحثیں اور اختلاف موجود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ ابھی بھی مزید جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہپناٹزم کے متعلق کچھ غلط فہمیاں اور ان کے جوابات

سائنسدانوں نے ہپناسس کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے، پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگ شکوک کا شکار ہیں۔

کیا ہپناسس دماغ پر قابو پانے کی ایک شکل ہے؟

نہیں ایسا نہیں. جب کسی کو ہپناٹائز کیا جاتا ہے، تو وہ تجاویز کے لیے زیادہ کھلے ہوتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی اپنے خیالات اور اعمال پر قابو رکھتے ہیں۔ ہپناسس لوگوں کو وہ کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔

کیا ہپناسس بھولی ہوئی یادوں کو واپس لا سکتا ہے؟

اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ ہپناسس لوگوں کو ان چیزوں کو یاد رکھنے میں مدد دے سکتا ہے جو وہ مکمل طور پر بھول چکے ہیں۔
لیکن اس بات میں ماہرین میں اختلاف ہے کچھ اس بات کو مانتے ہیں کہ اس سے پرانی یاداشت بحال کی جاسکتی ہیں۔

جبکہ دوسری طرف کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دراصل، ہپناسس جھوٹی یادیں بھی بنا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے ان چیزوں کی یادیں جو واقعتاً کبھی نہیں ہوئیں۔

کیا ہپناسس لوگوں کو وہ کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جو وہ عام طور پر نہیں کرتے؟

نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی ہپناٹائز ہو جائے تب بھی وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہیں۔ ہپناسس لوگوں کو ان کی اپنی مرضی کے خلاف کام کرنے یا وہ کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا جو وہ نہیں کرتے جب وہ ہپناٹائز نہیں ہوتے۔

لہذا، اگرچہ ہپناسس کے بارے میں ابھی بھی کچھ تنازعات اور اختلاف موجود ہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دماغ پر قابو نہیں رکھتا، یہ بھولی ہوئی یادوں کو واپس نہیں لا سکتا، اور یہ لوگوں کو وہ کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔

ہپنوتھیراپی سیشن کا مکمل احوال جو عموما اختیار کیا جاتا ہے علاج کی نوعیت کے حساب سے یہ مختلف بھی ہوسکتا ہے۔

یہاں کسی ایسے شخص کے لئے مکمل ہپناسس تھراپی کے عمل کی ایک مثال آپ کو بتاتا ہوں جو تمباکو نوشی چھوڑنا چاہتا ہے:

ابتدائی مشاورت:

یہ عمل عام طور پر ابتدائی مشاورت کے ساتھ شروع ہوتا ہے جہاں فرد ایک قابل ہپنوتھراپسٹ سے ملتا ہے۔ اس سیشن کے دوران، ہپنو تھراپسٹ شخص کی تمباکو نوشی کی عادت، چھوڑنے کے محرکات، اور تمباکو نوشی سے وابستہ کسی بھی بنیادی وجوہات یا محرکات کے بارے میں معلومات اکٹھی کرے گا۔

اہداف کا تعین:

ہپنوتھراپسٹ اور فرد ہپنوسس تھراپی کے لیے واضح اہداف پر تبادلہ خیال کریں گے۔

ہپناسس کی تیاری:

ہپنوتھراپسٹ ہپناسس کے عمل کی وضاحت کرے گا، کسی بھی غلط فہمی کو دور کرے گا، اور اس شخص کے کسی بھی خدشات یا سوالات جوابات دیگا۔

انڈکشن:

ہپناسس سیشن انڈکشن کے ساتھ شروع ہوتا ہے، جو شخص کو گہرے آرام اور توجہ کی حالت میں رہنمائی کرنے کا عمل ہے۔ جیسے کہ گہرے سانس لینے، پٹھوں کی ریلیکسیشن ، یا گائیڈڈ ویژولائزیشن جس میں فرد کو ٹرانس جیسی حالت میں داخل ہونے میں مدد ملتی ہے۔

ٹرانس حالت میں جانا :

ایک بار جب شخص آرام دہ حالت میں ڈاخل ہوجائے تو، ہپنوتھراپسٹ اس کو اور گہرائی میں ٹرانس میں لے جائیگا ۔ یہ ان تجاویز کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جو اس شخص کے دماغ اور جسم کو مزید آرام دہ بناتی ہیں، جس سے انہیں تجویز اور قبولیت کی بلندی تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔

تجویز تھراپی:

ہپنوٹک حالت کے دوران، ہپنوتھراپسٹ سگریٹ نوشی چھوڑنے سے متعلق مثبت تجاویز فراہم کرے گا۔ ان تجاویز میں سگریٹ چھوڑنے کے لیے شخص کی حوصلہ افزائی کو تقویت دینا، سگریٹ کے تئیں شدید نفرت پیدا کرنا، خود پر قابو پانے اور قوتِ ارادی کو بڑھانا، اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والے رہنے کی صلاحیت میں اعتماد پیدا کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ہپنوتھراپسٹ اس شخص کی رہنمائی کر سکتا ہے کہ وہ تمباکو نوشی سے پاک مستقبل کا تصور کرے، خود کو ایک غیر تمباکو نوشی کے طور پر تصور کرے اور تمباکو نوشی سے پاک رہنے کے فوائد کا تجربہ کرے۔ یہ تصور مطلوبہ تبدیلی کو برقرار رکھنے کے لیے مثبت وابستگیوں اور محرکات کے ساتھ لاشعوری ذہن کو تقویت دینے میں مدد کرتا ہے۔

ہپناسس کے سیشن کے بعد، ہپنوتھراپسٹ اس شخص کے ساتھ تجربے پر تبادلہ خیال کرے گا، جس سے وہ اپنے خیالات، احساسات، اور سیشن کے دوران حاصل کردہ کسی بھی بصیرت کا اشتراک کر سکے گا۔ یہ بحث ہپناسس کے دوران ہونے والی مثبت تبدیلیوں کو تقویت دینے میں مدد کرتی ہے اور مزید رہنمائی یا مدد کا موقع فراہم کرتی ہے۔

فالو اپ سیشنز: فرد کی ضروریات اور پیشرفت پر منحصر ہے، فالو اپ سیشن اس شخص کو سگریٹ نوشی چھوڑنے کے سفر میں مزید مدد دینے کے لیے مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ ان سیشنز میں تجاویز کو تقویت دینا، کسی بھی چیلنج یا دوبارہ ہونے سے نمٹنے، اور سگریٹ نوشی سے پاک طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی حکمت عملی فراہم کرنا شامل ہو سکتا ہے۔

کارکردگی میں اضافہ:

ہپناسس کا استعمال اکثر کھیلوں، عوامی تقریر، یا تخلیقی سرگرمیوں جیسے شعبوں میں کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مثبت ذہنی حالتوں کو مضبوط بنا کر، توجہ کو بہتر بنا کر، اور کارکردگی کی بے چینی کو کم کر کے، ہپناسس افراد کو اپنی بہترین صلاحیتوں کو حاصل کرنے اور اپنی پوری صلاحیت تک پہنچنے میں مدد کر سکتا ہے۔
ہپناسس جذباتی واقعات کے صدمے کو ٹھیک کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ لاشعوری ذہن تک رسائی حاصل کرکے، یہ لوگوں کو گہرے جذباتی مسائل کو دریافت کرنے اور ان کو حل کرنے، تکلیف دہ تجربات پر کارروائی کرنے اور جذباتی درد کو دور کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ریگریشن تھراپی جیسی تکنیکیں خاص طور پر کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔

ہپناسس ہر چیز کا جادوئی حل نہیں ہے، اور اس کے نتائج ہر شخص سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ہپناسس کی تاثیر کا انحصار عوامل پر ہوتا ہے جیسے کسی شخص کی اس کے لیے کھلے پن، اس کی حوصلہ افزائی، اور ہپنوتھراپسٹ کی مہارت۔ محفوظ اور موثر نتائج کو یقینی بنانے کے لیے ہپناسس کے سیشنز کے لیے اہل پیشہ ور افراد کو تلاش کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

ہپناسس کی بات آتی ہے تو اس سے جڑے خطرات پر بھی بات ہوسکتی ہے یہاں کچھ مثالیں بتاتا ہوں۔

ہپناسس بعض اوقات لوگوں کو ان چیزوں کو یاد کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جو حقیقت میں نہیں ہوئیں۔ ہپناسس کے ساتھ ماضی کے واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کرتے وقت محتاط رہنا ضروری ہے کیونکہ غلط یادیں حادثاتی طور پر تخلیق ہوسکتی ہیں۔

ہپناسس مضبوط جذبات یا یادوں کو جنم دے سکتا ہے، خاص طور پر جب تکلیف دہ تجربات سے نمٹنا ہو۔ ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہپنو تھراپسٹ کے ساتھ کام کرنا بہت ضروری ہے جو ان شدید جذبات کو سنبھالنے میں مدد اور رہنمائی فراہم کر سکے۔

مثال: اگر کوئی کسی مشکل تجربے کو دریافت کرنے کے لیے ہپناسس کا استعمال کرتا ہے، جیسے کہ کار حادثہ، تو یہ خوف یا اداسی جیسے شدید جذبات کو واپس لا سکتا ہے۔ ایک اچھا ہائپنوتھراپسٹ شخص کو ان جذبات کو محفوظ اور معاون طریقے سے پروسیس کرنے میں مدد کرے گا۔

ہپناسس کسی شخص کو تجاویز کے لیے زیادہ آسان بنا سکتا ہے، جو علاج کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہپناسس کے دوران دی گئی تجاویز اخلاقی اور فرد کے بہترین مفاد میں ہوں۔

نفسیاتی حالات:

ہپناسس ہر کسی کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کی دماغی صحت کی کچھ شرائط ہیں۔ دماغی صحت کے شدید مسائل جیسے شیزوفرینیا یا dissociative عارضے میں مبتلا افراد ہپناسس کے لیے اچھا ردعمل ظاہر نہیں کر سکتے یا منفی اثرات کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔

مسائل کے واحد حل کے طور پر ہپناسس پر بہت زیادہ انحصار کرنے کا خطرہ ہے۔ ہپناسس کو ایک ایسےطریقہ علاج کے طور پر دیکھنا ضروری ہے جو تبدیلی میں مدد کر سکتا ہے، لیکن واحد حل طور پر نہیں۔ خود اعتمادی اور خود افادیت پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

ایک قابل اور تجربہ کار ہپنوتھراپسٹ کا انتخاب کرنا ضروری ہے ۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر معین اسلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں