106

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

تحریر: نبیلہ امجد شاہ

مسلمان سال میں دو تہوار یں مناتے ہیں عید الفطر رمضان کے روزے رکھنے کے بعد مسلمانوں کو رب کی طرف سے انعام کے طور پر عطا کی گئی ہے جو یکم شوال کو منائی جاتی ہے عید الاضحی 10ذی لحج کو منائی جانے والی اس تہوار کا اغاز تب ہوا جب جد سید الانبیاء خلیل اللہ خضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے رب کی خوشنو دی اور رضا کے لیے اپنے چشم و چراغ اپنے نور نظر لخت جگر اور سکون قلب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کر رہے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام انبیاء میں سب سے زیادہ آزمائے گئے تھے سب سے زیادہ مشکل ہے انہوں نے سہی تھی۔اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا ہوگا کتنا درد ناک کتنا رقت انگیز منظر ہوگا جب ایک بوڑھا باپ اپنے لخت جگر کو قربان کر رہا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنا خواب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سنایا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا سورہ صافات ایت نمبر 102 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ترجمہ ،”کہاں اباجان جو آپ کو حکم دیا جا رہا کر ڈالیے آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے “
یہ تھی اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری باپ سے کوئی سوال نہیں کیا کوئی اعتراض نہیں کیا کہ مجھے جینا ہے میں ہی کیوں بلکہ فر ما نبرد اری سے سر جھکا دیا ۔یہ سب کیا تھا ۔یہ حضرت حاجرہ کی تربیت تھی جو انہوں نے تن تنہا عرب کے بیاباں میں اپنے بیٹے کی اس احسن انداز میں کی تھی کہ انہوں نے اپنے باپ کے خواب پر سوال نہ اٹھایا بلکہ ان کو رب کا حکم بجا لانے کو کہا اور آج کل کے والدین بچوں کو دنیا کی ہر آسائش تو دے دیتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں سستی کر جا تے ہیں

۔اس طرح اگر باپ خلیل اللہ تھا تو بیٹا بھی کوئی عام انسان نہ تھا بلکہ عنقریب ذبیح اللہ کا تاج سجانے والا تھا اور اس کے ساتھ نبی آخر الزماں سرور کونین سردار دو عالم رحمت للعالمین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی نسل میں سے آنا تھااور پھر اس عظیم ہستی اور پیکر اخلاص حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی رضا کے لیے اپنے بیٹے کو خوشی خوشی قربان کرنے کے لیے تیار کیا

۔آپ نے اپنے لاڈلے بیٹے اپنے نظر کے نور کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور جب چھر ی پھیر نے لگے تو صدا آئی سو رہ صا فات ایت نمبر 106-104میں ارشاد باری تعالٰی ہے“اور ہم نے انہیں آواز دی کہ اے ابراہیم سن تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم وفادار بندوں کو ایسی جزا دیتے ہیں یہ یقینا ایک کھلی آزمائش تھی “
اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ بیھج کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور آپ دونوں باپ بیٹے کی اس قربانی کو قبولیت کی وہ منزل عطا کی کہ تا قیامت تمام امتوں کے لیے قربانی سنت اور اسوہ قرار دیا بقول اقبال
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اس واقعے میں اللہ تعالی کا مقصد باپ کے ہاتھوں بیٹے کو قربان کرنا نہ تھا بلکہ یہ ایک آزمائش تھی اور مومن آزمائش کی بھٹی میں جل کر ہی کندن بنتا ہے اللہ نے تمام عالم تمام کائنات کو بتانا تھا کہ بقا اور قرب الہی کا حصول صرف اللہ کے حکم پر سر بسجود ہونے میں ہے اور تب سے لیکر آج تک ہر سال کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں مسلمان قربانی کرتے ہیں جس میں صاحب ثروت کے ساتھ ساتھ مساکین اور فقرا کا حصہ ہوتا ہے ۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے
“قربانی کے جانور کے ہر بال پر انسان کے لیے نیکی ہے “
“سورہ حج میں اللہ تعالی فرماتا ہے” اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خوں بلکہ اس تک تمہارا تقوی پہنچتا ہے”
آج پھر مسلمانوں کو اس امر کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ایمان کو اتنا مضبوط کرے کہ اللہ کا ہر حکم اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سمجھ کر سر بسجود ہو ۔اور اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کرے جو ان کی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا ضامن ہو ۔اللہ ہم سب کی ایمان سلامت رکھے اور ہمیں قرآن وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں