خود دار قوم بننے کی طرف قدم ! 83

تبدیلی کیلئے خود کو بدلنا ہو گا !

تبدیلی کیلئے خود کو بدلنا ہو گا !

سیاست میں اختلافات بڑھنے لگتے ہیں تو مزاکرات کا ہی راستہ اختیار کیا جاتا ہے ، اس وقت بڑے زور شور سے مزاکرات کی ہی باتیں ہورہی ہیں ،لیکن مزاکرات کس نے کس سے کرنے ہیں ،یہ معاملات طے ہی نہیں ہو پارہے ہیں ،اپوزیشن طاقتور حلقوں سے مزاکرات کی خواہاں ہے ، جبکہ طاقتور حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کو اپنے معاملات خود طے کرنے چاہئیں ، یہ ہی آئین و جمہوریت کا تقاضا ہے، لیکن اس ملک میں آئین و جمہوریت کو بڑی ہی بے دردی سے پامال کیا جارہا ہے ، اس صورتحال میں جب تک سارے سٹیک ہو لڈر مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل نہیں بنائیں گے ،اس ملک میں کوئی استحکام نہیں آپائے گا ۔
اس بات کا سب کو ہی بخوبی ادراک ہے کہ ملک میں استحکام لانے کیلئے مل بیٹھنا ہو گا ، لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مل بیٹھ نہیں پارہے ہیں ، اس میں بڑی روکاوٹ بانی تحریک انصاف کو ہی سمجھا جارہا ہے ،جبکہ اس میں بڑی روکاوٹ طاقتور حلقے ہیں ، اگر طاقتور حلقے چاہیں تو ناصرف سارے مل بیٹھ سکتے ہیں ،بلکہ آگے بڑھنے کا راستہ بھی تلاش کر سکتے ہیں ،لیکن ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا جارہا ہے ، اہل سیاست کو ایک میز پر لایا جارہا ہے نہ ہی خود مل بیٹھ کر الجھے معاملات کو سلجھایا جارہا ہے ، اس کے باعث ایک ایسا سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے ،جوکہ حل ہونے میں ہی نہیںآرہا ہے۔
اگر اہل سیاست چاہیں تو بھی اپنے معاملات سلجھا نہیں سکتے ہیں ،کیو نکہ اُن کی ڈوریاں دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں ، اس لیے ڈوریاں ہلانے والوں کے طابع ہوتے کچھ کر پارہے ہیں نہ ہی اُن کی مرضی کے خلاف کچھ کر نا چاہتے ہیں ، کیو نکہ اُن کی ناراضگی مول لے کر اقتدار میںآیاجاسکتا ہے نہ ہی اقتدار میں رہا جاسکتا ہے ،اس زمینی حقائق کو جانتے ہوئے کیسے کوئی اپنی مرضی سے مزاکرات کر سکتا ہے اور باہمی اختلافات دور کر سکتا ہے ، حکومتی قیادت مزاکرات کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں ،انہیں مزاکرات میں اپنا سب کچھ کھوتا ہی دکھائی دیتا ہے ، اس لیے ہی اپوزیشن کو زیادہ سے زیادہ دبایا جارہا ہے اور دیوار سے لگایا جارہا ہے ، اس کے ساتھ مزاکرات کی دعوت کا چھڑ کائو بھی لگایا جارہا ہے، تاکہ جمہوریت میں امرانہ رویئے کے الزامات سے بچا جاسکے ، لیکن اس طرح سے بچ پائیں گے نہ ہیزیادہ دیر تک چل پائیں گے ۔
اس ملک میں ہوائیں کب بدل جاتی ہیں ، کسی کو کچھ پتا ہی نہیں چلتا ہے ،اتحادی حکومت سمجھ رہی ہے کہ اس کے سر پر دست شفقت ہے تو کوئی فکر کی بات ہی نہیں ہے ، لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دست شفقت کے بدلنے کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے ، اس لیے اقتدار انجوئے کرتے ہوئے خوف زدہ بھی دکھائی دیتے ہیں ،اس خوف کا ہی اثر ہے کہ حکومتی قیادت مقتدرہ سے اپوزیشن کے اختلافات کو ہوا دینے میں لگی ہوئی ہے ، لیکن پس پردہ بہت کچھ ایسا چل رہا ہے، جو کہ بظاہر دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،مگر اس تبدیلی کو سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں ، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے رویئے بھی بدلنے لگے ہیں ، اس بدلتے روئیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگنے لگا ہے کہ سیاست میں شددت کے رجحان میں جہاں اضافہ ہو گا ،وہیں مزید انتشار بڑھے گا ۔
اگر دیکھاجائے تو اس وقت ملک کسی تبدیلی نہ ہی کسی انتشار کا متحمل ہو سکتا ہے، اس ملک کو آگے لے جانے کا واحد راستہ مذاکرات و مفاہمت ہے، اگر اس طرف پیش رفت نہ ہوئی توسب کو ہی بھگتنا پڑے گا اور جوابدہ بھی ہونا پڑے گا ، اگر اس جوابدہی سے خود کو بچنا ہے توہرکو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، ہمارے سیاستدانوں کو بھی سبق سیکھنا ہوگا، ہماری سول حکومتوں اور حکمرانوں کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا، ہماری مقتدرہ اور عدلیہ کو بھی اپنی ناکامیوں اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا، ہماری پارلیمنٹ کو بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ عوام کی ہی منتخب حقیقی پارلیمان ہے اور اْن کے حقوق کی ہی صحیح محافظ ہے ، اس ملک کے مفاد میںسب کو ہی اپنا آپ بدلنا ہوگااور سچائی کا سامنا کرتے ہوئے اپنی کو تاہیوں کا ازالہ کرنا ہو گا ،اس کے بعد ہی ملک میں کوئی تبدیلی آئے گی اور ملک و قوم استحکام و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں