Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

مسئلہِ فلسطین اور عالمِ اسلام کی خاموشی۔

مسئلہِ فلسطین اور عالمِ اسلام کی خاموشی۔

صنف : کالم۔
مصنفہ : بنتِ احمد شیخ۔

“دورِ حاضر میں جو فلسطین کے حالات ہے وہ عالمِ اسلام تو کیا پوری دنیا کے سامنے ہیں۔” فلسطین ایک ایسا ملک تھا، جس کی خوبصورتی اپنی مثال آپ تھی، جہاں کے رہنے والے لوگوں کو اللہ نے حسن سے مالا مال کیا ہے۔
“لیکن آج!! دورِ حاضر میں جو فلسطین کی حالت ہے، اسے دیکھ کر دل تڑپتا ہے۔ آئے دن گاجر، مولی کی طرح کٹی لاشوں کو دیکھ کر دل چھلی ہوتا ہے۔ لیکن عالمِ اسلام نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ فلسطین کے بچوں کے ایمان ہم سے زیادہ مضبوط ہیں۔ پورے پورے خاندان کے جنازے پڑھ کر بھی ان کے منہ سے “الحمد اللّٰہ” جیسے کلمات ادا ہوتے ہیں۔
“ابھی حال ہی میں فلسطین کی ایک ویڈیو نظروں سے گزری، جس میں ایک بچی کا کہنا تھا کہ “عالمِ اسلام کو چاہے کہ وہ ہماری قبروں پر فاتحہ نا پڑھے، کیوں کہ ہمارے شہید زندہ ہے، مر تو مسلمانوں کے ضمیر گئے ہیں۔”
فلسطین کے بھائی ،بچوں، ماؤں کی آہ و بقاء فرش سے عرش تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن عالمِ اسلام کے کان بند ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ واقعی مسلمانوں کے ضمیر مر چکے ہیں۔
جس طرح ہمارے ہاں، سبزی منڈیوں کے بازار ہوتے ہیں، وہاں لاشوں کے بازار لگے ہوئے ہیں۔ ہر طرف خون ہی خون، لاش ہی لاش نظر آتی ہے، اور ایسا کرب ناک منظر دیکھ کر بھی ہمارے دل نہیں دہل رہے، ہم اپنی مستیوں میں مگن ہیں، ہم اسرائیلی پروڈکٹ استعمال کر کے یہودیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہمیں فرق نہیں ہڑ رہا کہ ہمارے مسلمان بھائی، بچوں، عورتوں کو بے دردی سے مارا جارہا ہے۔ “
کیا پھر بھی ہم خود کو فخر سے مسلمان کہتے ہیں؟ کیا واقعی ابھی بھی ہمارے ضمیر زندہ ہیں؟ جو ہمیں اپنی بہنوں، بھائیوں، اور بچوں کی آہ و فغاں سنائی نہیں دے رہی۔
“حضرت نوح علیہ السلام سے جب اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ، اے نوح!! ہم تیرے اہل و عیال کو سلامت اس طوفان سے بچائے گے، تب اللّٰہ نے اہل و عیال حضرت نوح علیہ السلام کی فیملی کو نہیں بلکہ ان مسلمانوں کو حضرت نوح علیہ السلام کو کا اہل و عیال کہا تھا، جو ان پر ایمان لائے تھے۔”
ہر جگہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اہل و عیال سے مراد تمام مسلمانوں کو لیا ہے۔
“تو آج پوچھیں خود سے، کہ کیا ہمارے فلسطینی بھائی، بہن ہمارا اہل و عیال نہیں؟ یا پھر ہم اب بھی مسلمان ہیں؟

جو اپنے اہل و عیال کی لاشوں کو دیکھ کر بھی ہم نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہم نے اپنے اہل وعیال کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے ان لاشوں کے پاس بیٹھ کر آہ و زاریاں کرتی ماؤں اور بہنوں کی سسکیوں پر اپنے کان بند کر لیے ہیں۔ ہم نے مظلوم نومولود شیرخوار بچوں، بچیوں کو بے دردی سے قتل ہوتا دیکھ اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔
ہمارے حکمرانوں نے اپنے ہی مسلمان بہن، بھائیوں کی مدد کے تمام راستے بند کردیے ہیں۔ حالاں کہ یہ وقت جہاد کا ہے، قتال کا ہے، قصاص کا ہے، لیکن ہم بزدلوں کی طرح خاموش تماشائی بنے بیٹھے اپنے مسلمانوں کو تڑپتا، سسکتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
“میری ان تمام مسلمانوں سے گزارش ہے، جو کہ اپنے فلسطینی بہن، بھائی کا درد محسوس کرتے ہیں، اور ان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اسرائیلی پراڈکٹ کا بائے کاٹ کریں۔” کیوں کہ اگر ہم اپنے حکمرانوں کے آگے مجبور ہوکر کچھ نہیں کرسکتے، لیکن اتنا تو کر ہی سکتے ہیں، اور ان شاءاللہ کرتے رہے گے۔ ہم اپنے قلم سے جہاد کرے گے، ہم اسرائیلی پراڈکٹ کا بائے کاٹ کرے گے، تاکہ کل کو قیامت کے دن ہم بھی یہودیوں کے ساتھ کھڑے نا کردیے جائے۔ ہم یہودی پراڈکٹ کا بائے کاٹ کر کے یہودیوں کی معیشت کو برباد کریں گے۔ ہم انہیں نقصان پہنچائے گے۔ جو ہم سے ہوسکے ہم کریں گے ان شاءاللہ۔”
ہم جب اسرائیلی پراڈکٹ خریدتے ہیں، تب ہم اپنے ہی مسلمان بہن، بھائیوں، کو مار رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ ان کے خون سے رنگ جاتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہی پیسوں سے وہ اسلحہ خریدا جاتا ہے، جس سے ہمارے مسلمان بہن، بھائیوں کی جانیں لی جارہی ہے۔ ہم اپنے مسلمان بہن، بھائیوں کے قاتل ہر گز نہیں بنے گے ان شاءاللہ۔
“ایک وقت تھا، جب مسلمان اپنی غیرت کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ لیکن آج!! آج ہماری غیرت، ہمارے ضمیر، سب قبروں میں جا سوئے ہیں۔ ہمارے حکمران اندھے، گونگے، بہرے بنے اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ لیکن وہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہم سب کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ ہمارے اندر محبت تو کیا انسانیت تک ختم ہوچکی ہے، تبھی آج ہم اس قدر ظلم پر بھی خاموش ہیں۔ ہم اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔
“یاد رکھیں!! کل قیامت کے دن ان کے ہاتھ ہمارے گریبان پر ہوں گے، اور وہ ہم سے سوال کریں گے، کہ جب ہم پر ظلم کی انتہا کی جارہی تھی، تب تم کہاں تھے؟ تو سوچیں اس وقت کیا جواب دیں گے؟ کہ ہم اپنی دنیا میں مگن تھے۔ اپنی عیاشیوں میں مصروف تھے۔ ہم فخر سے لوگوں کو نیچا دیکھانے کے لیے بتا رہے تھے کہ ہم فلاں اسرائیلی برانڈ استعمال کرتے ہیں۔ ہم اپنے ہاتھ اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کے خون سے رنگ رہے تھے۔”
“اللّٰہ سے دعا ہے کہ، اللّٰہ فلسطینیوں کی غیب سے مدد فرمائے، اور عالمِ اسلام کو وہ سماعت عطا کرے جس سے وہ اپنے بہن، بھائیوں کی آہ و زاریاں سن سکیں، وہ بصارت عطا کرے جس سے وہ تڑپتے، سسکتے زخمی بچوں کو دیکھ سکیں، اور وہ زبان عطا کرے جو اپنے مسلمان بہن، بھائیوں کے حق میں آواز اٹھا سکے۔ “آمین ثم آمین اللّٰھم آمین یا رب العالمین الٰہی آمین۔”

Exit mobile version