حسد کا مفہوم
مصنفہ : عرشی کومل سجاد حسین
صنف : ایکٹویٹی
حسد کا مفہوم :
انسانی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے کسی بھائی کو اچھی حالت میں دیکھیں تو خوش ہوں کہ الله تعالی نے اسے نعمتوں سے نوازا ہے لیکن حسد وہ بری خصلت ہے۔ جو کسی کو خوش حال اور پر سکون دیکھ کر انسان کو بے چین کر دیتی، اور وہ اپنے بھائی کی خوشحالی دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے کڑھتا رہتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ دوسروں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا، خود اپنے لیے پریشانی مول لے لیتا ہے۔
کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا حسد ہے۔ جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے۔
حسد کے لغوی معنی کھوکھلا کرنے کے ہیں۔ حسد کو حسد اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حاسد کے دل کو اندر سے کھوکھلا بنا دیتا ہے۔
حسد کا اصطلاحی معنی صاحب نعمت سے نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنا ہے۔ حسد نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ سکھی لکڑی کو فوری طور پرجلا کر راکھ کردیتی ہے،اب ہم آجائیں قرآن کی چھوٹی صورت سورۃ فلق پر۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ “ومن شرحاسد اذا حسد”
اور میں پناہ مانگتا ہوں حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے۔”
حسد کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ حاسد انسان اللہ سے بدگمان ہوجاتا ہے اس کی سوچ غلط رخ پر کام کرنے لگتی ہے اور اس کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے خدا کے بارے میں بدگمانی اور ناانصافی کا اظہار ہونے لگتا ہے۔حسد کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کے ایسا شخص تعمیری ذہن و فکر اور اصلاح و فلاح کی کاوش سے محروم ہوجاتا ہے وہ اپنی زندگی کو بنانےمستقبل کو سنوارنے اور صلاح و سدھار کے کام کرنے کے بجائے ہر وقت اضطراب اور بےچینی میں مبتلا رہتا ہے
کہ جن کو خدا نے اپنی نعمتوں سے نوازاہے ان کی شخصیت کو مجروح کرے ‘ ان کو نقصان پہنچائے اور ان کی تذلیل کرے اور ان کی اذیت و تکلیف رسانی کا سامان کرے۔ اسی لیے اللہ نے قرآن میں یہ تعلیم دی کے حاسد کے شر سے انسان اللہ سے پناہ مانگے۔ اور اس ایمانی شعور کے ساتھ یہ الفاظ ادا کرے کہ میں جس کی پناہ مانگ رہا ہوں وہ سب پر غالب ہے۔ اس کی قدرت و اقتدار سب پر حاوی ہے۔ اس شر کا بھی وہی خالق ہے اور کوئی چیز اس کی قدرت اور علم کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ اور حاسد کو چاہیے کے وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچے کے جس رب نے فرشتوں اور جنوں کے سامنے انسان کو اہمیت دی اور اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اسے ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہیے جس سے اللہ کے ہاں اس کی عزت گھٹتی ہوئی محسوس ہو۔
جس شخص کی طبیعت میں حسد پیدا ہو جائے وہ کبھی قانع نہیں ہوسکتا۔
وہ ہمیشہ اپنے سے برتر کو دیکھ کر حالت زار پر كف افسوس ملتا رہتا ہے۔ حاسد اپنی بھڑکائی ہوئی آگ میں خود ہی جلتا رہتا ہے۔
اب آتے ہیں اس بات پر حسد پیدا ہونے کی وجوہات کیا ہیں یا کیا وجہ ہے؟ جو حسد جیسا مکروہ جذبہ انسان میں پیدا ہوتا ہے۔
انسان میں حسد پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہے جن میں چند یہ ہیں
ایمان کامل نہ ہونا يعنى الله پر کامل بھروسہ نہ ہونا
نفسیاتی مسئلہ یعنی کسی بھی بندے کی خوشی، خوبی یا خواہش کو پورا ہوتے دیکھ کر برداشت سے باہر ہونا
ناسودہ خواہشات وہ خواہشات جو پوری نہ ہو سکی ہو۔
تنگ نظر اور چھوٹے ظرف والا
ناشکری اور بے صبرا پن بھی ایک اہم وجہ ہے حسد جیسی وباء پھیلنے کی
بچاؤ :
الله تعالٰی نے جب دنیا میں بیماریاں بھیجی تو ساتھ میں ان بیماریوں کا علاج بھی بھیجا ہے۔ اسی طرح حسد جیسی وباء کا بھی علاج ممکن ہے۔ انسان چاہے تو کیا نہیں کرسکتا۔ الله نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اسے سوچنے سمجھنے جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے اور ان نعمتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان حسد جیسی وباء سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔
الله پر کامل یقین ہونا کہ جب الله دوسرے انسان کو نوازے پر قادر ہے تو وہ تمھیں دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے اور اگر نہیں ملا تو اسی میں میری بہتری ہے، یعنی پہاڑوں جتنا یقین۔
ہر وقت توبہ استغفار کرتے رہنا۔
جو نعمت میسر ہے اس پر الله کا شکر ادا کرتے رہنا۔
اپنا تعلق قرآن اور الله سے قائم کرنا۔
ناآسودہ خواہشات پر رونے کے بجائے نئی خواہشات بن کر انہیں پورے کرنے کی کوشش کرنا۔
سب کی خوشی میں صدق دل سے خوش ہونا۔
رسول پاک صحابه کرام اور بزرگان دین کی سادگی و قناعت کی تاریخی مثالوں سے نصیحت حاصل کرنا۔
دولت واقتدار سے پیدا ہونے والی برائیوں اور مفاسد پر نظر رکھنا۔
ان عوامل پر عمل کرکے انسان حسد جیسی وباء سے بچ سکتا ہے۔