“نیکی تومسلماں سے مطلوب تھی نہ کہ موبائل سے “
ازقلم:- حمادیہ صفدر
“انسان سے نیکی چھننےکی صورت میں موبائل نیک ہوگیا”
گھرکےجھگڑےکورفع دفع کرنےکےبعدشاکرسلیم صاحب سرجھکائے انتہائی مغموم بیٹھےتھےکہ
ان کا منجھلا بیٹا محمد ندیم بابا کے کمرے میں داخل ہوا۔
اک مسکراہٹ ، طمانیت شاکر سلیم کےچہرےپرعیاں ہوئی کھڑےہوکربیٹےکااستقبال کیا،ماتھےپہ بوسہ دیادونوں باپ بیٹادیرتک بغل گیررہے۔
“کیاہوا بابا خفا سے معلوم ہورہےہیں” ، ندیم نے سوال کیا
ہاں بیٹا خفاومغموم توبہت تھامگرتم سے ملاہوں توسارےغم کافورہوچکےہیں۔
ندیم شاکر، شاکرسلیم کی ساری اولاد میں سے صالح ، پابند صوم وصلوۃ اور انتہائی فرمانبرداربیٹاتھا۔
اتنا فرمانبردار کہ شاکرسلیم صاحب پرغم کےپہاڑبھی ٹوٹ رہےہوتے تو اس کودیکھتےہی تازہ دم ہوجاتے تھے ۔
مگر حقیقت کچھ اس طرح تھی کہ ندیم شاکر بیرونِ شہر ملازمت کرتاتھا جہاں سےاسےپندرہ دن یاایک ماہ بعد چھٹی ملتی تو وہ مسکراتےہوئے چہرے سے بابا کو تسکین پہنچانےکےلیےطویل سفر طےکرکےآن پہنچتا۔
آج بھی اس کےآنےسےقبل سب سےبڑے اور چھوٹے بیٹےکےمابین خوب جھگڑاہواتووہ خوب گھتم گھتاہوئے۔۔شاکرسلیم صاحب پریشانی کےعالم میں ان بگڑےحالات کو سنوارنے کےمتعلق سوچ رہےتھے،قریب تھاکہ پریشانی سےان کی شریان پھٹ جاتی وہ تو رب کائنات نے ہوا کی مانند شاکرسلیم کےغموں کاعلاج بنا کر ندیم شاکرکوحاضرکردیاتووہ اپنے دکھ سارے بھول گیا۔اوردونوں کےدرمیان گفتگوکاسلسلہ شروع ہوا تو ندیم نے باباسے مغموم ہونے وجہ دریافت کی ، باپ نےتمام حال حقیقت گوش گزار کی تو بگڑےحالات کوسنوارنے کےمتعلق لائحہ عمل جاننے کےلیےبیٹےکی جانب نظریں گاڑ دیں تو ندیم بولا بابا ۔۔۔
گھروں میں بےسکونی کی وجوہات ہماری زبانوں کا ذکرالہی سے محروم ہونا ہے ۔ ہمارے لب تلاوت کلام اللہ سے محروم ہیں ۔ “ہماری صبحیں رب کائنات کی حمد کےبغیراور ہماری شامیں اس کی ثناء کے بغیر ہوتی ہیں” ، یوں بےبرکتی و نااتفاقی جنم لیتی ہیں ۔
ندیم کی ساری گفتگو کوبہت تحمل سے سننےکےبعد شاکرنے جیب سے موبائل نکالا اور کہا بیٹا ۔۔
میرے موبائل کی جانچ کرو۔
اس میں صبح و شام کےاذکار ہیں،قرآنی سورتیں جنہیں ہم روزمرہ تلاوت کرتے ہیں اس کےعلاوہ مکمل قرآن کریم موجود ہے۔
اب قبل از ذولحج میں نے تلبیہ و تکبیرات کا اضافہ بھی کروایا جنہیں چلانا اور سننا میرے معمولاتِ اولی میں سے ہے۔
ندیم شاکر کےچہرے پہ تبسم آیا ۔
آہ بابا یہی تو بات ہےکہ اتنی نیکی اور صالحیت مسلمان بندےمیں ہونی چاہیے۔یہ اذکار توموبائل کرتاہے ۔موبائل پڑھتاہے ۔انسان کے حالات تب بدلیں گے جب انسان کی زبان ذکراللہ سے ترہوگی ۔۔
شاکرندیم کےچہرے پرحیرانی وپریشانی کے ثاثرات عیاں ہوگئے ۔۔
بولےبیٹا !! “ہم موبائل میں اپنے آپ کوذکراللہ میں محورکھنے کےلیےہی یہ سامان جمع کرتے”
ندیم بولا بابا ۔ یہی تو بات ہے ۔ ہمارا المیہ اسی کام میں محو ہے ۔
موبائل اذکارپڑھ رہاہے بندہ کام میں مصروف ہے۔ موبائل قرآن پڑھ رہاہے بندہ کام میں مصروف ہے. اگرچہ اس کےکان سن رہےہیں مگردھیان بالکلیہ اس طرف نہیں ہوتا ۔ یہ تو ان اذکاراور قرآنی آیات کی بےحرمتی ہے۔
بابا جب انسان وضو کرکے قرآن کو ہاتھوں میں تھام لیتا ہے اس وقت اس کی آنکھیں صحیفہءِ اطہرکو دیکھتی ہیں ۔ زبان پڑھتی ہیں لبوں کو تحریک ملتی ہے۔ اس کےکان سنتےہیں ۔
اب مجھےبتائیں کہ بالاکل اسی طرح موبائل پر چلانے سے یہ ثمرات نصیب ہوتے ہیں ؟
کیاموبائل پرچلانے سے انسان کے تمام حواس میں تحرک پیداہوتاہے؟
شاکرسلیم بھیگی انکھوں اور روہانسی آوازمیں بولا نہیں بیٹے نہیں ۔۔
ہم نے ظلم کیا ، برباد کیا
قراں سے خود کو آزاد کیا ۔
اور تم نے میرے دل پہ دستک دی میرےبیٹےاور اب سے کم سہی مگر اپنی زبان سے اذکارکیا کروں گا ۔۔
باباجی موبائل کوبھی اس کام کے لیے استعمال کریں مگر جب سفرمیں ہوں یا ایسی حالت میں جب کہ قرآن یااذکار کی کتب کاحصول ناممکن ہو ۔ ورنہ موبائل سے ہی سننا ہمیں قرآن سے دور کرسکتاہےاور کچھ نہیں کرسکتا۔
شاکرسلیم نے سرہلاتے ہوئےبیٹےکی بات کو تسلیم کرلیااور ارادہ پختہ کرلیا۔
اب شاکرسلیم اپنے بچوں کو لےکربیٹھتا،اذکارکرتااور قرآن پڑھتاکبھی ان سےکہتاکہ تم پڑھو اور سب سنا کرتے،اس دوران ترجمے پرغوروتفکرکی فضابھی پیداہوتی۔کچھ ہی عرصےمیں شاکرسلیم کےآشیانے کی رونق ہی دیدنی تھی۔۔
اگلی ملاقات پر شاکرسلیم نے ندیم بیٹے کا کھلےدل سے شکریہ بھی کیااوراس کاحوصلہ بڑھایا