Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

حج کی اہمیت و فضیلت

حج کی اہمیت و فضیلت

مصنفہ : عرشی کومل سجاد حسین
صنف : مضمون
الله تعالی اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے اور کئی ایسے مواقع فراہم کرتا ہے جس سے اپنے بندوں کو اپنا قرب اور اپنی رضا عطا فرمائے۔
عبادت کا تصور بہت وسیع ہے تمام عبادات قرب الہی اور حلاوت ایمان کا ذریعہ ہیں۔
نماز جسمانی اور روحانی عبادت ہے زكوة مالی عبادت ہے جس میں ہمدردی اور احساس کاعظیم پہلو پایا جاتا ہے۔
روزه بھی جسمانی اور روحانی عبادت ہے جو صبر اور تحمل کا درس دیتا ہے۔ مگر حج ایسی عبادت ہے جو جسمانی بھی ہے اور مالی بھی ہے اور جہاد کی بھی ایک صورت اس میں پائی جاتی ہے۔
گویا جج سے مالی، بدنی، جہادی تمام عبادات کی روح نمایاں ہوتی ہے حج کے ذریعے تقوی، بردبادی، ہمدردی و خیر خواہی اور عفو درگزر جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں جو دوسری تمام عبادات میں پائی جاتی ہیں۔
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔
فرائض :
حج کی نیت کرکے احرام باندھنا
وقوف عرفہ یعنی میدان عرفات میں قیام کرنا
طواف زیارت یعنی خانہ کعبہ کے 7 چکر لگانا
سعی یعنی صفا اور مروہ کے درمیان 7 بار چکر لگانا
حج کی اہمیت :
اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم ترین رکن حج ہے، اور یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو، قرآن کریم میں حج کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:” اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔”
(سورۃ آلِ عمران، رقم آلآیۃ:97)
ترجمہ:” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، عرض کیا گیا: پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر عرض کیا گیا کہ پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو۔”
صحیح البخاری، كتاب الحج، باب فضل الحج المرور، رقم الحدیث:1477، ج:2، ص:553، ط:دارابن کثیر)
اِس کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ اوّل البشر حضرت آدم ؑ سے لے کر رسول اکرمﷺ تک تمام یا اکثر انبیاء ؑ نے حج ادا فرمایا ہے ۔(روح المعانی: ج02ص230)
قرآن و حدیث میں جہاں حج کی بہت زیادہ تاکید اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی گئی ہے تو وہیں اُس کے ترک کرنے پر سخت سزائیں اور وعیدیں بھی ذکر فرمائی گئی ہیں ۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ:’’اورلوگوں میں سے جو لوگ اس (بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لئے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے ۔ اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دُنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے پرواہے۔‘‘ ( سورۃآل عمران : 97)۔ایک دوسری جگہ قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم ؑ سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ترجمہ:’’ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں اور دُور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی اُن اُونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں جو (لمبے سفر سے ) دُبلی ہوگئی ہوں۔‘‘(سورۃ الحج : 27)۔چنانچہ یہی ہواکہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم ِخداوندی سے اعلان فرمایا تو دیکھتے ہی دیکھتے زمین کے دُور دراز علاقوں سے حج و عمرہ کی ادائیگی کے لئے فرزندانِ اسلام قطار اندر قطار، جوق در جوق تلبیہ پڑھتے ہوئے آپہنچے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اُنہوں نے عرض کی : ’’اے میرے رب! میں (بیت اللہ کی تعمیر سے) فارغ ہوچکا ہوں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ آپؑ لوگوں میں حج کاا علان فرما دیجئے! ۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا : ’’اے میرے رب! کیا میری آواز تمام ( تمام لوگوں تک) پہنچ جائے گی ؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’آپؑ اعلان فرمایئے! آواز کا پہنچانا ہمارا کام ہے ۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا :

’’اے میرے رب! میں کیسے اعلان کروں؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’آپؑ یہ کہیں کہ: ’’اے لوگو! تم پر بیت عتیق (یعنی بیت اللہ) کا حج فرض کیا گیا ہے ۔‘‘ (جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کیا تو) آپؑ کی آواز کو زمین و آسمان کے درمیان والوں سب نے سن لیا ۔ دیکھتے نہیں کہ لوگ (آج بھی) زمین کے دُور دراز علاقوں سے حج و عمرہ کا تلبیہ پڑھتے ہوئے (کس طرح ) جوق در جوق (دیوانہ وار) چلے آتے ہیں۔
( یہ اسی اعلان کا اثر ہے۔) (مستدرک حاکم:3464)
اسی طرح حدیث شریف میں بھی حج کرنے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں ۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا :’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : (1)اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺاللہ تعالیٰ کے (آخری) رسول ہیں۔ (2)نماز کو قائم کرنا ۔ (3)زکوٰۃ دینا۔ (4) (بیت اللہ شریف کا) حج کرنا (5) رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری :08)
حج ایک ایک ایسی پرنور عبادت ہے جو انسان کے گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔اس کے اندر عجز و انکساری پیدا کرتی ہے۔
ہر قسم کا غرور تکبر اس کے دل سے نکل جاتا ہے اور وہ خالصتاً اپنے رب کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کرلیتا ہے۔۔۔
حج کے انفرادی و اجتماعی و انفرادی فوائد سے ہم اسی صورت میں فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ جب ہمارا مقصد رضائے الٰہی ہو ہماری سرگرمیوں کا مرکز و محور دین حق کی سربلندی ہو اور حج کے روحانی مقاصد پر نظر جمی رہے تب ہی ہمارا حج حج مقبول و مبرور ہوسکتا ہے۔

Exit mobile version