مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتی ہے !
قومی سیاست میں کچھ بہت اہم پیش رفت ہونے لگی ہیں، ایک طرف بانی تحریک انصاف نے اہل سیاست سے مذاکرات کرنے کی ہامی بھر لی ہے تو دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن کے گھر پہنچ کر سر پرائز دیے دیا ہے ، اس ملاقات سے دونوں جماعتوں کے درمیان آئی سرد مہری اور دوری کی برف تو پگھلی ہے ، مگر اس ملاقات سے مولانافضل الرحمن کے موقف میں کوئی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آرہا ہے ،
کیو نکہ اس بار مولانا فضل الرحمن گرتی حکومت کو سہارا دینے والے ہیںنہ ہی بے اختیار حکومت کیلئے اپنی سیاست دائو پر لگا نے والے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اس ملاقات سے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان بڑھنے والی قربتوں کو تھوڑا دھچکا ضرورلگے گااوریہ عمران خان کیلئے کوئی اچھی خبر بھی نہیں ہوگی کہ جنہوں نے اپنے مزاج کے برعکس کمپرومائز کرکے مولانا فضل الرحمان سے دست تعاون بڑھایا تھا،
تاہم جے یو آئی نے ابھی تک پی ٹی آئی سے کوئی رسمی اتحاد کیاہے نہ ہی کوئی مل کر حکومت مخالف احتجاج کیا ہے ،جے یو آئی اپنے الگ احتجاجی اجتماعات کرر ہے ہیں اور تحریک اپنے الگ احتجاج کررہے ہیں، مولانا فضل الرحمان جہاندیدہ سیاستدان ہیں اور اپنی تمام آپشن کھلی رکھتے ہیں، لیکن اس آزمائی بے اختیار حکومت کی کوئی آپشن قبول کرتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ، لیکن حکومت اپنے تائیں سارے حربے آزمائے جارہی ہے۔
حکومت ایک طرف اپوزیشن کو گاہے بگاہے مذاکرات کی دعوت دیے رہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن میں توڑ پھوڑ کرنے میں بھی لگی ہوئی ہے ، اس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھتے ہی جارہے ہیں ، اگر اہل سیاست نے مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا ہے تو اس کی ذمے داری کسی ایک فریق پرنہیںہے، بلکہ یہ ذمے داری سب کو ی اپنی اپنی سطح پر لینی ہوگی،اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہم کسی ایک فریق پر اس بحران کا بوجھ ڈال کر آگے بڑھ جائیں گے تو یہ تجربہ ماضی میں بھی ناکام رہا ہے اور اب بھی ناکام ہی ہوگا، اس لیے مفاہمت کا عمل کھلے ذہن یا کھلے دماغ کے ساتھ ہی کرنا ہوگا
اور اس میں ایک دوسرے کے لیے سیاسی لچک بھی پیدا کرنا ہوگی۔اگر دیکھاجائے تو یہاں پر کوئی ایک دودھ کا دھلا ہے نہ ہی غلطیوں سے مبرا ہے ،ہر ایک سے ہی غلطیاں ہوئی ہیںاور اب بھی ہورہی ہیں،اس لیے کسی ایک کو ٹارگٹ کرکے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے نہ ہی انتقام کا نشانہ بنا کر آگے بڑھا جاسکتا ہے ، یہ ایک کے بعد ایک نوں مئی کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں ؟یہ کون لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں
اورکون لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں؟ان کے بارے حقائق سامنے آنے چاہیے، کیونکہ اس قسم کی باتیں یقینی طور پر پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو اور زیادہ گہرا کریں گی اور اس کا نتیجہ مزید سختی کی صورت میں ہی سامنے آئے گا،جوکہ ملک کے مفاد میں ہے نہ ہی جمہوریت کیلئے بہتر ہوگا ، حکومت کو جہاں دغلی پالیسی ترک کرنا ہو گی وہیں اپوزیشن کو بھی اپنے رویئے میں تبدیلی لانا ہو گی ۔
یہ وقت انتشار کا نہیں ،مفاہمت کو فروغ دینے کا ہے ، بانی تحریک انصاف نے محمود خان اچکزئی کو حکومت سے مذاکرات کرنے کا اختیار دیے دیا ہے ، محمود خان اچکزئی حکومت کے ساتھ طاقتور حلقوں سے بھی مذاکرات کرنے کے خواہاں ہیں ،اُن کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل بیٹھ کر اپنے دائرے کار میں رہنے کا تہیہ کریں اور سارے الجھے معاملات کو سلجھائیں ، اگرایک بار سب نے مل کر سارے معاملات مکالمے کے ذریعے سلجھا لیے تو ملک کو بحرانوں سے نکالناکوئی مشکل کام نہیں ر ہے گا،
لیکن اس کیلئے پارلیمان کو بااختیار کرنا ہوگا ، صوبوں کو اُن کے وسائل کاحق دینا ہو گا ،اس سے دہشت گردی ختم ہو گی اور ملک میں خوشحالی آئے گی اور امن بھی قائم ہو گا ،اس وقت ہم ایک ایسے ہی موڑ پر کھڑے ہیں کہ جہاں پر سب کو ہی ذمے داری کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے اور مفاہمت کے راستے پر ہی آگے بڑھنا ہے ،کیو نکہ ہمیں مفاہمت ہی آگے برھنے کا راستہ دیے سکتی ہے ، وگرنہ کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آئے گا ،سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔