62

سیاسی کشمکش میں استحکام ممکن نہیں !

سیاسی کشمکش میں استحکام ممکن نہیں !

ملک بھر میں شدید گرمی کے اثرات کی کیفیت ہر سطح پر احتیاطی تدابیر کی متقاضی ہے، تاہم ملک کے ہر شہرمیں رونما ہونے والے کئی واقعات کے تناظر میں نہ صرف فلاحی تنظیموں اور مخیر افراد کو زیادہ مستعد رہنا ہے، بلکہ خود شہریوں کو بھی ماہرین صحت کے بتائے ہوئے احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھنا ہے، کیو نکہ حکومت کی ترجیحات میں کہیں عوام کا خیال رکھنا اور سہولیات دینا نہیں ، قرض پر قرض لے کر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا ،

مہنگائی ،بجلی ، گیس کے بلوں میں اضافہ کرنا اور اس پر سے توجہ ہٹانے کیلئے ایک کے بعد ایک نئے ایشو کے پیچھے لگائے رکھنا ہے ،عوام کو دووقت کی روٹی پوری کر نے کے لالے پڑے ہیں اور عوام کو کبھی مخصوص نشستوں کا ڈرامہ دکھایا جارہا ہے تو کبھی عزم استحکام کے پیچھے لگایا جارہا ہے، جبکہ اس سب سے ہی عوام بے زار دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری درست کہتے ہیں

کہ عوام کوایسے کسی ایشو سے کوئی غرض نہیں ہے ، عوام کو دووقت کی روٹی آسانی سے ملنے سے غرض ہے ، عوام کو اپنے مسائل کے تدارک سے غرض ہے ، عوام کو اپنی زندگی بدلنے سے غرض ہے ،عوام آئے روز کے کھیل تماشوں سے تنگ آچکے ہیں ، عوام چاہتے ہیں کہ انہیں رلیف دیا جائے ، انہیںمہنگائی سے نجات دلائی جائے، اُن کی زند گی آسان بنائی جائے، اُن کی زندگی میں کوئی تبدیلی لائی جائے ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیںکیاجا رہا ہے ،عوام کو ادھر اُدھر الجھایا جارہا ہے ،نمائشی اقدامات سے بہلایا جارہا ہے

،اس ملک میں شفاف انتخابات کروانا ، ووٹ کو عزت دلانا اور مخصوص نشستوںکی آئین و قانون کے مطابق تقسیم کرانا ،الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اورملک میں استحکام لانا حکومت کی ذمہ داری ہے ،اگرکوئی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا ہے تو اسے پو چھاجانا چاہئے ، لیکن انہیں کون پو چھے گا ؟ان کا احتساب کو ن کرے گا؟ ان سے پو چھتے ہوئے،ان کا احتساب کرتے ہوئے تو اپنے ہی پر جلنے لگتے ہیں۔
اس تنا طر میںہی مولانا فضل الرحمن کا کہنا بالکل بجا ہے کہ جمہوریت اور پارلیمان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں ، شہباز شریف بے اختیار وزیر اعظم ہیں ،فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں اور ان کا بوجھ اتحادی حکومت اُٹھا رہی ہے ، لیکن اتحادی اقتدار میں آنے سے پہلے نخوبی جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے

اور یہ بھی جانتے تھے کہ انہیں سارا بوجھ اُ ٹھانا پڑے گا ،خود کو بچانے کیلئے اپنی سیاست کو دائو پر لگانا پڑے گا ، انہوں نے سب کچھ اپنی مرضی سے کیا ہے اور جو کچھ مل رہا ہے ،اس میں ہی خوش دکھائی دیتے ہیں ، انہیں عوام سے سر و کار ہے نہ ہی عوام کی حمایت چاہتے ہیں ، اس لیے عوام کے مسائل کے تدارک سے مبرا ہی نظر آتے ہیں ،ان کے نمائشی اعلانات و اقدامات ماسوائے ڈنگ ٹپائو پروگرام کے کچھ بھی نہیں ہیں، اس لیے ہی ان کے اثرات عام عوام تک پہنچ رہے ہیں نہ ہی اس کا کوئی فائدہ عام عوام کو ہورہا ہے ، اس کا ہی نتیجہ ہے کہ اس اتحادی حکومت کے تسلسل سے عوام نہ صرف بے زار دکھائی دیتے ہیں، بلکہ اس سے نجات حاصل کر نے کی جد وجہد میں بھی برابرا کی شریک کار نظر آ تے ہیں۔
کوئی مانے نہ مانے ،اس حکومت کی عوام مخالف پا لیسوں سے سب ہی بے زار ہو چکے ہیں ،لیکن رانا ثنا اللہ جیسے حکومتی مشیران باوار کرانے میں کو شاں دکھائی دیتے ہیں کہ عوام بے زار ہیں نہ ہی تحریک انصاف قیادت کی رہائی سے کوئی انقلاب آنے والا ہے ، ایک طرف ان کی خود اعتمادی قابل دید ہے تو دوسری جانب اتنے خائف ہیں کہ تحریک انصاف قیادت کوپا بند ساسل رکھنے پر پورا زور لگارہے ہیں، نئے مقدمات بنانے کا عندیہ دیے رہے ہیں ، اس انداز حکومت سے ملک میں کوئی استحکام لایا جاسکتا ہے

نہ ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی اپنی روش بدلی جارہی ہے نہ ہی مذاکرات کی راہ اختیار کی جارہی ہے ، یہ سب کچھ ایسا ہی زیادہ دیر تک چلنے والا ہے نہ ہی کوئی چلنے دیے گا ، اپوزیشن کے ساتھ عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا جارہا ہے ۔اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہو جائیں ، قومی سلامتی کی خاطر سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک میثا ق مفاہمت ہو جانا چاہئے‘ تاکہ پاکستان کے اندر اور باہر کے دشمنوں کو بھی خبردار کیا جا سکے کہ ان کے خلاف قوم سیاسی اور عوامی سطح پر متحد ہے، مگر سوال پھر وہی ہے کہ اس کا آغاز کہاں سے ہو گا،کون کرے گا

اور اس کیلئے کون سا ایسا فورم ہو سکتا ہے کہ جہاں پر سیاسی قائدین اکٹھے ہو سکیں گے؟ اگرسمجھا جائے توہمارے حالات ہی ہمارے لیے اس بھائی چارے کا سب سے بڑا جواز اور تقاضا ہیں ،اس کے ساتھ طاقتور حلقوں کی رضا مندی بھی شامل ہوجائے تو اس معاملے کی پیشرفت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی ہے ، ورنہ اس سیاسی کشمکش سے تیزی سے بدلتے حالات بے قابو ہونے کے خدشات ظاہر کررہے ہیں ، اگر حالات بے قابو ہو گئے تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ، سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں