88

تعلیم چور مافیا

تعلیم چور مافیا

طاہر محمود آسی

میرا پاکستان بڑا خوبصورت ملک ہے، اس میں قدرت کی مہربانیوں کا کوئی فقدان نہیں ہے- اللہ کے کرم سے دنیا جہاں کی سب نعمتوں سے مالا مال ملک ہے تاریخ پاکستان کو ذہن میں لائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ایسے انمول ہیرے میرے وطن عزیز سے منسلک تھے اور اب بھی ہے کہ آج کا قاری اور فکر اندیش سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ آخر اس خوبصورت دھرتی کو کیا ہو گیا ہے، میرا یہ حسین و جمیل چاند جیسا ملک گہنا کیوں گیا ہے، کس بدبخت کی نظر نے اسے اج کی نہج پر پہنچا دیا ہے؟، ہر طرف چور چور کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ہر کوئی دوسرے کو چور کہہ رہا ہے، صرف یہاں تک ہی بات محدود نہیں رہی ہے بلکہ ثبوت بھی پیش کیے جا رہے ہیں- ملکی معاملات کا ہر میدان ایسے بد تہذیب لوگوں کے شکنجے میں آ چکا ہے کہ اہل اقتدار اور درد دل رکھنے والے بھی کسی نہ کسی طرح مجبور و محکوم اور بے کس نظر اتے ہیں- سچ ہے کہ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی ہیں ان کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے اور نامرادی اور نا اہلی ان کو گھیر لیتی ہے، بقول انور شعور

پوچھنے والا نہیں کوئی یہاں
کام رکھو یار اپنے کام سے
جو بھی کہنا ہے وہ کہہ دو بے جھجک
پھر مکر جانا بڑے آرام سے

کوئی بھی بات کہہ کر مکر جانا ہماری عام سی روایت ہے مگر اب سوشل میڈیا اور کیمرے کی آنکھ آپ کی ہر بات کو محفوظ کر رہی ہے- تعلیم چور صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہر جگہ پائے جاتے ہیں یونیورسٹیاں ڈگریاں بیچ رہی ہیں، صرف مال کا چکر ہے ” توں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے” ایم فل اور پی ایچ ڈی والوں کی آج تک تحقیق نامکمل ہے، دنیا میں سب سے زیادہ تعلیم چور بر صغیر پاک و ہند میں دستیاب ہیں، ہندوستان کے وزیراعظم مودی کی ڈگری کا آج تک سراغ نہیں لگ سکا ہے،کئی علماء، ایم پیز اس وقت پاکستان کے عالم فاضل ہو گئے جب جنرل مشرف نے الیکشن کی شرائط میں تعلیم کی قدغن لگائی، پہلی دفعہ میں نے تورا بورا سے جاری شدہ ڈگریوں کے متعلق پڑھا اور سنا، ایسی یونیورسٹیوں کا وجود اب بھی ہے جو نہ ہی کوئی بلڈنگ رکھتی ہیں، نہ ہی کوئی سٹاف اور نہ ہی ان کا کوئی آگے پیچھے ہے، ہر سطح پر آپ کو تعلیم چور نظر ائیں گے، پاکستان میں اس کی کثیر تعداد موجود ہے، وکلاء، منسٹرز، ٹیچرز، ڈاکٹر، انجینیئرز اور رائٹرز الغرض ہر شعبے میں ان کی تعداد موثر حیثیت میں موجود ہے اور بڑے بڑے نام اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہوئے ہیں، بہر صورت دردناک کہانی ہے

گماں تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہیں

قارئین! اندرونی کہانیاں بیان کرنے سے قاصر ہوں مگر غمزدہ ہوں کہ آج سرکار دو جہاں (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت کرنے والی قوم اور اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان کہاں کھڑا ہے، مزید یہ کہ کس بات پر فخر محسوس کر رہا ہے- ہم ڈگریوں کے چور، ہم قانون کے چور، ہم جمہوریت کے چور بلکہ دنیا کے کونے کونے میں مشہور اعلی اور ہر معاملے کے نسلی چور مشہور ہیں- بقول شاعر

فن، تعلیم، تجارت ایتھے
کاروبار، سیاست ایتھے
سانوں آج تک سمجھ نہیں آئی
کیہڑی ایہہ جمہوریت ایتھے

قارئینِ کرام! یہ جو لیبل ہم پر لگے ہوئے ہیں واقعی سچ ہیں اور اگر سچ ہیں تو کیوں ہیں؟ ہم بدنام زمانہ کیوں ہیں؟ پاکستان پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ اپنے گرین پاسپورٹ کی عزت و ناموس اور وقار کو منوانے سے کیوں قاصر ہیں؟ اہل نظر کی نظر میں ہم ناکام و بے بس کیوں ہیں غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے-

ہم میں سے ہر کسی کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا ، بات قدر سچ ہے کہ “یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے “

لیکن سچ اور حقیقت کو کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے- تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور ہر شہری کے لیے تعلیمی سہولیات میسر کرنا حکومت وقت کی اہم ذمہ داری ہے- اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تعلیم روزگار اور تحفظ فراہم کرنا ہر حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، پیارے ملک سونے کی چڑیا کے ہم نے ہر طرح سے اور ہر طرف پر کاٹ دیے ہیں بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گی ٹانگیں بھی توڑ دی ہیں اور اسے لنگڑا لولا کر دیا ہے- تعلیمی ترقی کا پہیہ بڑی تیزی سے زوال پذیری کی طرف رواں دواں ہے-

تعلیم چور مافیا کی بدولت ہر ادارے پر عقل شعور رکھنے والے فرد اور ہماری اولادوں کا اعتبار اور بھروسہ دم توڑ چکا، ہم اپنی نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ بس چور مافیاز ہم نے کبھی سوچا نہیں ہے صرف اور صرف کہانیاں سنانے میں بڑے تیز ہیں لیکن عملا زیرو ہیں- تعلیم چوروں کو اج تک ہمارا نظام تعلیم اور اعلی عدالتیں پکڑنے سے قاصر ہیں اخر کب تک ایسا ہوگا؟
76 سالوں میں بھی ہم کچھ نہیں کر پائے ہیں اگے دیکھیے کیا گل کھلاتا ہے ہمارا نظام تعلیم۔ تعلیمی بجٹ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر نہ ہونے کے برابر ہے اور دعوے بڑے بڑے ہیں، یہ قوم ایسی دلدل میں دھنس چکی ہے کہ نکلنا نہایت مشکل ہو چکا ہے ہر ادارے کا جنازہ نکل چکا ہے مگر باقاعدہ پڑھایا نہیں جا سکا ہے-
قارئینِ کرام! تعلیم چوروں نے امتحانی نظام میں ایسے سکم رکھے ہوئے ہیں کہ ہم اچھے اور بہترین لوگ پیدا کرنے سے قاصر ہیں جس طرح گندم کے کھیت سے سویا بین کا تیل نہیں نکل سکتا، سفید کا درخت پھل نہیں دے سکتا اسی طرح ہمارا نظامِ تعلیم چور مافیا اور امتحانی نظام اچھے سائنسدان انجینیئرز، ڈاکٹرز اور دوسرے مختلف شعبہ جات کے ماہرین سامنے لانے سے قاصر ہے- نقل اور رشوت کی گندگی سے الودہ نظام تعلیمی چور مافیا کو تو سکون قلب فراہم کر سکتا ہے لیکن ملت کی بنیادوں کو مضبوط نہیں کر سکتا ہے کالی بھیڑیں اور تعلیم چور بھیڑیے ہمارے سسٹم میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں ان سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑانے کی اشد ضرورت ہے

ہر درد مند دل کو رونا میرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے

تعلیم چور مافیا صرف اپنے مقاصد کو حاصل کر رہا ہے کبھی سلیبس بدل کر کبھی سکولوں کو پرائیویٹ کر کے، کبھی سکولوں کو پیف کے حوالے کر کے، کبھی امتحانی نظام کو تبدیل کر کے، تمام حربے صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ تباہی کی طرف جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں یہی کہنا مناسب ہے کہ تعلیم چور مافیہ سے حکومت کو ہر وقت اگاہ رہنا ہوگا

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں