49

محبت کی حقیقت

محبت کی حقیقت

از قلم حنا اقبال(لالیاں)

محبت کی حقیقت
بانوقدسیہ کہتی ہے محبت زندگی میں ایک دفعہ ضرور کرنی چاہیے تاکہ پتہ لگ جائے محبت کیوں نہیں کرنی چاہیے۔ میں جب چھوٹی تھی تو اس بات کو اس طرح سمجھتی تھی کہ ہم نے کوئی کام بہت محنت سے کیا اور اجر نہیں ملا یا وہ چیز ہم سے دور ہو گئی، اس لیے ہمیں پتہ لگ جاتا ہے کہ ہمیں اس چیز کو پانے کے لیے اتنی محبت کے ساتھ محنت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ہم بڑے ہو گئے اور چیزوں کو دوسرے رخ سے دیکھنا شروع کیا۔ پھر سمجھ میں آئی کہ بانو قدسیہ کی بات صحیح ہے؛ محبت سچی ہوتی ہے لیکن حالات کی مجبوری کی نظر ہو جاتی ہے، اس لیے انہوں نے کہا کہ محبت کرو اور زندگی کھل کے جیو۔
لیکن پھر جیسے جیسے آہستہ آہستہ بڑی ہوتی گئی، نظریے تبدیل ہونا شروع ہو گئے اور اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس فقرے کی سمجھ صحیح سے آئی ہے، یا پھر شاید اس فقرے کی سمجھ زندگی کے آخری حصے میں آئے کیونکہ یہ فقرہ بہت ہی گہرائی تک جاتا ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ زندگی میں ایک دفعہ محبت اس لیے کرنی چاہیے تاکہ ہمیں لوگوں کی اصلیت کا پتہ لگ جائے۔ پتہ ہے کیسے؟ ہم ایک شخص کو پانے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں، شاید ہم اسے خدا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ پہلے پہل تو بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ ہم اجنبی ہوتے ہیں، اجنبی ایک راز ہے اور انسان کی نیچر راز کو جاننا ہے

۔ اس لیے جب وہ جان لیتے ہیں تو قدر کرنا کم کر دیتے ہیں۔اور جب اس شخص نے زندگی کے سارے خواب اس کے ساتھ دیکھے ہوتے ہیں، وہ جب اسے چھوڑ کر جاتا ہے تو تب اس کے سر پر قیامت گرتی ہے اور وہ روتا چلاتا ہے لیکن وہ شخص کبھی واپس نہیں آتا۔ حتی کہ وہ اپنی زندگی بھی ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ واپس نہیں آتا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ ڈپریشن اور تنہائی پسند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

ہر وقت اس شخص کے میسج کا انتظار کرتا ہے، اس سے بات کرنے کی ممکن کوشش کرتا ہے لیکن وہ ہار جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے جذبات بیان کرنا بند کر دیتا ہے اور دنیا کی غور و فکر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ اور تنہا ہوتا چلا جاتا ہے۔
پھر ایک دن وہ ان تمام چیزوں سے اُکتا جاتا ہے اور وہ پہلا قدم بہت ہی چھوٹا قدم خدا کے در پر رکھتا ہے۔ تھوڑا سا خدا کے نزدیک ہو کر بتاتا ہے “یا اللہ تیرے بندے نے یہ کیا ہے”۔ پھر آہستہ آہستہ وہ شکایت کرنا خدا سے بند کر دیتا ہے کیونکہ اسے پتہ چلنا شروع ہو جاتا ہے کہ غلطی اس شخص کی نہیں، ہم خود کو ہی نہیں جان سکے۔ اور جب انسان اس کو جان لیتا ہے تو وہ خدا کو جاننا شروع کر دیتا ہے۔

پھر اسے خدا کے سجدے میں مزہ آنا شروع ہوتا ہے۔ اسے پھر اس آیت کی بھی سمجھ آنا شروع ہوتی ہے “آسمان پر نظر دوڑا، بے شک تیری نظر لوٹ کر واپس آ جائے گی”۔ اس کا مطلب ہے اگر انسان پوری دنیا گھوم بھی لے لیکن آخر میں وہ خدا کے سامنے ہی آتا ہے۔
ایسے پتہ چلتا ہے کہ انسان زندگی میں ایک دفعہ چوٹ لازمی کھاتا ہے تاکہ اسے پتہ چل جائے کہ ہر رشتہ بکری کی جال سے بھی کمزور ہے۔ اسی لیے ہمیں زندگی میں ایک دفعہ محبت ضرور کرنی چاہیے تاکہ ہمیں پتہ لگ جائے کہ محبت کیوں نہیں کرنی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں