50

مذاکرات سے ہی بند رستے کھلتے ہیں !

مذاکرات سے ہی بند رستے کھلتے ہیں !

ملک میں سائفر کا شور ابھی تھما نہیں تھا کہ امر یکی قرارار داد کی گونج سنائی دینے لگی ہے ، امریکی ایوان نمائندگان نے پا کستان میں جمہوریت کی حمایت میں قرار داد منظو رکرتے ہوئے عام انتخابات کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے،اس قرارداد کے حق میں 368 ووٹ پڑے، جب کہ مخالفت میں صرف 7 ارکان نے ووٹ دیے ہیں، ادھر پاکستان نے امریکی قرارداد پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پاکستان کے انتخابی عمل سے نامکمل واقفیت کا نتیجہ ہے‘ایسی قراردادیں تعمیری ہیں نا ہی بامقصد ہوتی ہیں،اس سے باہمی تعلقات پر اچھے اثرات نہیں پڑیں گے۔
پا کستان کی ہر دور حکومت میں کوشش رہی ہے کہ امر یکہ سے اچھے تعلقات استور رکھے جائیں ،اس کے لیے امر یکہ کے جہاںہر جائز وجائز مطالبات مانے جاتے رہے ،وہیںڈومور کے تقاضوں کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا رہا ہے ، تحریک انصاف قیادت نے پہلی بار جب امر یکہ کے ڈومور پر انکار کیا تو اس وقت کی اپوزیشن نے آسمان سر پر اُٹھا لیاکہ دنیا کی سپر پاور کو انکار کرکے پا کستان کیلئے مشکلات پیدا کردی گئی ہیں ، اس کے بعد ایک سائفر نے حکومت بدل دی تو اس سائفر کو ماننے سے ہی انکار کر دیا گیا اور امر یکی سائفر کے بارے بتانے والے کو پابندے سلاسل کر دیا گیا

،اس امر یکی سائفر کی سازش کے آلہ کار بننے والے اور اس سائفر سازش کو نہ مانے والے ہی اب امر یکی ایوان میں منظور قرار داد پر دھائی ڈال رہے ہیں ، اس کے خلاف بیانات داغ رہے ہیں، انہیں اب کوئی پرواہ ہی نہیں ہے کہ اس سے باہمی تعلقات اثر انداز ہو سکتے ہیں۔اس حکومت کے اپنے پر بات آئی ہے تو ساری ہی حدود عبور کی جارہی ہیں ، امر یکہ مخالف بیانات دیے جارہے ہیں ،وزیردفاع خواجہ آصف کا امریکی قرار دادکی منظوری پر کہنا ہے کہ امریکا کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے، پچھلے 75سال میں امریکا نے پا کستان میں دخل اندازی کی ہے

،اس کے نتائج ہم دہشتگردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں، جبکہ مولا نا فضل الر حمن کا کہنا ہے کہ ہم پہلے امریکہ کو خوش کرنے کے کیلئے آپریشن کرتے رہے ہیں اور اب چین کی خشنودی میں ایک نیا آپریشن کرنے جارہے ہیں،اس سے استحکام نہیں عدم استحکام میں مزید اضافہ ہی ہو گا ، اس ایک کے بعد ایک بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ اب کسی کو قومی مفاد کا خیال ہے نہ ہی دوست ممالک کے نا راض ہونے کا احساس ہورہاہے ، یہ بانی پی ٹی آئی کے امر یکہ مخالف بیان پرواویلا کر نے والے اب خود کیا کچھ کررہے ہیں ،کوئی پوچھ رہا ہے نہ ہی کسی پر کوئی مقدمامہ بنایا جارہا ہے۔
اتحادی حکومت کے کھانے اور دکھانے دانت الگ ہی،یہ امریکی قرار داد پر احتجاج تو کررہی ہے ،مگر اپنے گریباں میں جھانکنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہے ، یہ حکومت کس طرح آئی ہے اور کس طرح بنائی گئی

، کسی سے پو شیدہ ہے نہ ہی اس سے کوئی انجان ہے، اس حکومت کی کوئی ساکھ ہے نہ ہی اسے کوئی مان رہا ہے ، اس کے باوجود بڑی دیدہ دلیری سے کہا جارہا ہے کہ ان پر انگلی اُٹھائی جائے نہ آئینہ دکھایا جائے ، بلکہ خاموشی سے قبول کیا جائے ، پا کستان کے اندر اسے خاموشی سے کوئی قبول کر نے کیلئے کوئی تیار ہینہ ہی اس پر دنیا خاموش رہے گی، بلخصوص جن کے دست نگر ہیں ،وہ مطالبات کریں گے

اوران کے مظالبات ماننا بھی پڑیں گے ، اس امر یکی قرار داد کے آتے ہی وزیر اعظم نے اپوزیشن کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دیے دی ہے ،جبکہ اپوزیشن نے مذاکرات کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے منسوب کر دیا ہے ، اس بے اختیار حکومت کے بس میںکسی کی رہائی ہے نہ ہی مذاکرات کا مینڈیٹ ہے ، حکومت مذاکرات کی دعوت اُن کے ہی اشارے پر دیے رہی ہے کہ جن کے اشاروں پر اب تک چلے جارہی ہے،اس لیے مذاکرات کی دعوت کی بیل منڈھر چڑھتے دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔
یہ اتحادی حکومت اور اس کے سر پرست کب تک مذاکرات سے بھاگتے رہیں گے ، کب تک آزمائے فار مولے ہی آزماتے رہیں گے ،

انہیں آج نہیں تو کل مذاکرات کر نا ہی پڑیں گے ، انتخابات کے بدلے نتائج درست کر نا ہی پڑیں گے ، کیو نکہ اب بات بہت دور تک نکل گئی ہے ، امر یکہ سے لے کر چین تک سارے ہی سیاسی استحکام کی باتیں کررہے ہیں ،سارے ہی انتخابات کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں ،سارے ہی عوام کا حق رائے دہی ماننے پر زور دیے رہے ہیں ، اس دبائو کو زیادہ دیر تک حکومت برداشت کر سکتی ہے نہ ہی اسے سر پرست نظر انداز کر سکتے ہیں ، اگر گزشتہ حکومت سائفر کا بوجھ نہیں اُٹھا پائی تو اتحادی حکومت قرار داد کا بوجھ کیسے بر داشت کر پائے گی ، اس بوجھ سے نکلنے کا ایک ہی راستہ مذاکرات ہیں ، بات چیت اورمذاکرات سے ہی بند رستے کھلتے ہیں اور معاملات آ گے بڑھتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں