کیاپا کستان مسائل سے کبھی نکل پائے گا؟
پا کستان افراتفری کا شکار ہے، اس میں سیاسی افراتفری اور معاشی افراتفری بھی شامل ہے ،اس افرا تفری کا جب تک خاتمہ نہیں کیا جائے گا ، اس وقت تک ملک میں کوئی استحکام آئے گا نہ ہی ملک آگے بڑھ پائے گا ، وزیر اعظم شہباز شر یف بار ہا قومی سوچ پر چلنے کا عیادہ کرتے ہیں ،اپوزیشن سے مذاکرات کی دعوت بھی دیتے ہیں ،مگر عملی طور پر کچھ کر ہی نہیں پارہے ہیں ،اس سے تو ایسا لگتا ہے
کہ جیسے اُن کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہے، اس پر مولانا فضل الرحمن کا کہنابالکل بجا ہے کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں،وزیر اعظم شہباز شریف وازارت عظمیٰ کی بے اختیار کرسی پر بیٹھ کر بھی خوش دکھائی دیتے ہیں۔اتحادی بے اختیار اقتدار میں پہلے بھی خوش تھے اور آج بھی خوش ہی دکھائی دیتے ہیں ، کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں عوام نے مسترد کیا ہے ،اس کے باوجود اقتدار کا ملنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ، اس لیے سب کچھ کر نے اور بر داشت کر نے کیلئے تیار ہیں ،
وہ دوسروں کے فیصلوں کا سارا بوجھ اٹھا رہے ہیں اور اپنی سیاست بھی دائو پر لگا رہے ہیں، لیکن خود کو بچا کر اقتدار کے مزے ضروراُٹھا رہے ہیں ،اس اقتدار کو کھونا چاہتے ہیں نہ ہی عوام کی رائے دہی مان کر اپن چاہتیے مخالف کو دینا چاہتے ہیں ، یہ بار بار مذاکرات کی دعوت کا ڈرامہ ماسوائے دنیا کو دکھانے اور عوام کو بہلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔حکومت کیسے اپوزیشن سے مذاکرات کر سکتی ہے ،
بقول بانی پی ٹی آئی ان کے پاس اختیار ہے نہ ہی طاقتور حلقوں کی رضا کے بغیر کچھ کر سکتے ہیں ،اتحادی حکومت مزاکرات کر نا بھی نہیں چاہتی ہے ،کیو نکہ وہ جانتی ہے کہ اس کی کا میابی پر اقتدار چھوڑنا پڑے گا ، اتحادی خود کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہتے ہیں نہ ہی دوبارہ پا بند سلاسل ہو نا چاہتے ہیں، اس لیے ہی اپوزیشن کو مسلسل دبایا جارہا ہے ،دیوار سے لگایا جارہا ہے اور انہیں باور کریا جارہا ہے
کہ یہ سب کچھ طاقتور حلقے کررہے ہیں، حکومت کی وشش رہی ہے کہ اپوزیشن اور مقتدرہ کے درمیان اخلافات بڑھائے جائیں ، اس میں بڑی حدتک کا میاب بھی رہی ہے ، لیکن اس کے نتیجے میں عدم استحکام ساتھ مزیدانتشار بڑھتا ہی جارہا ہے۔اس بات کی حکومت کو کوئی پرواہ ہے نہ ہی مقتدرہ کوئی احساس کررہے ہیں ، اس کے پیش نظر حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ، اس کے ذمہ دار جان چھڑاسکتے ہیں نہ ہی حالات میں بہتری لاسکتے ہیں ،اس کیلئے اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا ،اپنی حدود کا تعین کر تے ہوئے
اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا ہو گا ،لیکن یہاں کوئی اپنی غلطیاں ماننے کیلئے تیار ہے نہ ہی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا جارہا ہے ، بلکہ انہیں غلطیوں کو ہی دہرایا جارہا ہے ،اس کے نتائج بھی وہی نکلیں گے ،جوکہ اس سے قبل نکلتے آئے ہیں ،لیکن انہیں بھگتنا عوام کو پڑتا ہے ، عوام نا کردہ گناہوں کی سزاکل بھی بھگتے رہے ہیں اور آج بھی بھگت رہے ہیں ،لیکن عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبر یز ہو نے لگا ہے
،اس عوام مخالف حکومت کے خلاف احتجاج بڑھنے لگا ہے۔ملک بھر میں ایک طرف اپوزیشن صف بندکررہی ہے تو دوسری جانب مسائل زدہ عوام سڑکوں پرآنے کیلئے تیار ہیں ، حکومت غلط فہمی کا شکار ہے کہ اپوزیش قیادت کو پابند سلاسل کر کے روک لیں گے اور عوام کو زور زبر دستی سے دبا لیں گے ، جبکہ اس بار ایسا کچھ بھی ہو نے والا نہیں ہے ، اپوزیشن روکنے والی ہے نہ ہی عوام کسی دبائو میں آئیں گے
،اس سے پہلے کہ عوام کے ریلے سب کچھ ہی بہا لے جائیں ، عوام مخالف قوتوں کو اپنا قبلہ درست کر لینا چاہئے ، عوام کے بارے سو چنا چاہئے ، عوام کو فوری رلیف دینے کا انتظام کر نا چاہئے ،عوام کے رائے دہی کا احترام کرنا چاہئے ، اگر ایک بار پھر ایسا نہ کیا گیا تو حالات بے قابو ہونے کاخدشہ ہے اور اس کے ذمہ دار ایسے سب لوگ ہوں گے ،جو کہ اپنی ذات کیلئے قومی مفادکو بھی نظر انداز کررہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ملک مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے اوراہل سیاست اور اہل ریاست ایک دوسرے کو نچا دکھانے سے ہی فرصت نہیں مل پارہی ہے ،یہ اہل سیاست اور اہل ریاست جب تک مل بیٹھ کر کوئی راستہ تلاش نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹہراتے رہیں گے ،در پیش مسائل سے نکل پائیں گے نہ ہی آگے بڑھ پائیں گے،ملک میں استحکام لانے کے لئے عوام کے سامنے نہ صرف حقائق لانا ہوں گے ، بلکہ ان حقائق کو مانتے ہوئے حقدار کو اس کا حق بھی دینا ہو گا ،اہل اقتدار جب تک حق تلفی کرتے ہوئے اقتدار پر قابض رہیں گے ،اس ملک میں استحکام آئے گا نہ ہی ملک مسائل کی دلدل سے کبھی نکل پائے گا ۔