نقاش نائطی 42

برہمنی سازش کے خلاف مکتی مورچہ کا قیام

برہمنی سازش کے خلاف مکتی مورچہ کا قیام

نقاش نائطی
۔ +966562677707

دس سالہ رام راجیہ میں سنگھی برہمنی ظلم و ستم متاثرین، مسلم دلت پچھڑی جاتیوں پر مشتمل،صد فیصداتفاق نا صحیح،کامن ، منی مم ایجنڈے پر مشتمل مکتی مورچہ کا قیام وقت کی سب سے اہم ضرورت

بھارت مکتی مورچہ کے بینر تلے، دلت آدیواسی پچھڑی جاتی،بدھ مت مسیحیت اور اسلام کے ماننے والے،جو سابقہ دس سالہ سنگھی رام راجیہ کے ظلم و ستم کے شکار ہوئے تھے، آج نہ صرف بھارت مکتی مورچا کے بینر تلے جمع ہوچکے ہیں بلکہ آرایس ایس کے گڑھ سمجھے جانے والے ناگپور میں، ھندو مسلم دلت پچھڑی جاتی مسیحی بودھ مت کے اتحاد مکتی مورچہ ملک گیر بلائے گئے کنونشن میں، دیگرمقررین کے ساتھ، ہم 30 کروڑ مسلمانوں کے غیر متنازع مذہبی رہنما المحترم مولانا سجاد نعمانی صاحب مدظلہ کی بانگ درا تقریر،دس سالہ سنگھی رام راجیہ ظلم و ستم کے خلاف اس مکتی مورچہ باہم دلت آدیواسی پچھڑی جاتی مسیحی بدھ مت مسلم اتفاق کی طاقت درشانے کے لئے کافی ہے۔

کافی عرصے سے مسلم دلت پچھڑی جاتی آدیواسی اتفاقیہ سیاسی گٹھ جوڑ کے بارے میں سوچا اور تدبر کیا جارہا تھا۔ لیکن دشمن اسلام ان سنگھیوں کی چالبازیوں کےشکار،ہم مختلف دھڑے بندیوں میں بٹے،بے وقعت سے ہوکر رہ گئے تھے۔

*آرایس ایس کے گڑھ ناگپور میں مسلم دلت آدیواسی پچھڑی جاتی عیسائی بدھ مت کے ماننے والی ذات برادریوں کا سموچہ مکتی مورچہ سمیلن میں حضرت مولانا سجاد نعمانی مدظلہ کی دھآڑ
اس کی تازہ مثال 2024 عام انتخاب بعد پارلیمنٹ پہلے سیشن ہی میں، اپوزیشن کانگریسی رہنما جناب راہول گاندھی کا اٹھایا یہ نکتہ،کہ دیش بھر میں کم و بیش 50 فیصد دلت آدیواسی پچھڑی جاتیوں کے ریزرویشن رہتے ہوئے بھی، سابقہ دس سالہ سنگھی مودی بریمنی رام راجیہ میں، تمام قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے،

ان دس سالوں میں ہوئی سرکاری نوکری تقرریوں میں، تقریباً اسی فیصد مناصب پر، برہمن اور اونچی ذاتی تقرریاں ہوئی ہیں۔ اور فی زمانہ سرکاری سطح ہونے والے نیٹ جیسےامتحانات کے پرچے لیک کروا، گھروت کابی کی طرف سے،ایک طرف دھنوانوں سے پیسے بٹورے جاتے تھے تو، دوسری طرف ایسے امتحانات فرضی کامیابی دکھا اور درشا ، ان برہمن نیز اونچی ذات نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں پر براجمان کیا جارہا تھا۔سابقہ دس سالہ سنگھی برہمنی لاقانونیت بعد، ہزاروں سالہ گنگا جمنی سیکیولر دستور ھند اثاث بحالی کے لئے، اور خصوصاً ہزاروں سال قبل کے منواسمرتی والے دلت برہمن چھوت چھات برہمنی نظام سے بھارت کو ماورا یا ونچت رکھنے کے لئے،ہم مسلم دلت، آدیواسی، پچھڑی جاتی، عیسائی بدھ مت کے ماننے والوں کو، آپسی اختلافات پرے رکھے، صد فیصد اتفاق رائےکےبجائے،

کامن منی مم پروگرام ترتیب دئیے، برہمنی راجیہ کے خلاف ایک مضبوط مکتی مورچہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یقیناً ہم 15 سے 20 مسلم آبادی 30سے 40 فیصد دلت آدیواسی پچھڑی جاتی، نیر مسیحی بدھ مت کے ماننے والے چھوٹے چھوٹے طبقوں کو ساتھ لئے، دو ڈھائی فیصد سے پانچ فیصد والے برہمنی لابی کو شکشت فاش دی جاسکتی ہے۔ فی زمانہ عالم میں پیر پسارتی جمہوریت کا اصل مقصد ہی لوگوں کی لوگوں پر حکومت کو، بہتر سے بہتر نمائندگی والی جمہوری حکومت بنانا ہے۔

ابھی حال ہی میں بہار میں ذات برادری طرز پر جو سروے کیا گیا ہے اسی طرز پورے ملک کا ذات برادری پر مشتمل صاف و شفاف سروے ہونا ضروری ہے۔ اور جس ذات برادری کی جتنی بھی آبادی ہوگی، اسکے آدھے تناسب کے برابر اس برادری کو زندگی کے ہر گام پر،نہ صرف حکومتی نوکریوں میں، بلکہ اسمبلی و پارلیمنٹ حلقوں سے منتخب ہونے والے انتخابات میں بھی ریزرویشن دیا جانا ضروری ہے۔ اس طرح سے تمام ذات برادریوں کی ایک حد تک اسمبلی و پارلیمنٹ میں نمائندگی لازم ملزوم کی جاسکے گی۔

اور سروے مطابق آئے اعداد و شمار کے نصف اس ذات برادری کو ریزرویشن دئیے جانے سے بھی،یقیناً دیش کی عدلیہ اعلی کے طہ شدہ پچاس فیصد ریزرویش حد تجاوز نہ کرتے ہوئے بھی، تمام ذات برادریوں کو تمام سرکاری سطح حق رائے دہی کا مناسب موقع دستیاب ہوگا۔ مثلاً مسلم آبادی کا تناسب 15 سے 16 فیصد ہی بیٹھتا ہے تو کم از کم اسکے نصف یعنی 8 فیصد پر اسمبلی و پارلیمنٹ حلقوں میں، مسلم کے لئے 8 فیصد سیٹیں مختص یا ریزرو کئے، مختلف سیاسی پارٹیوں کے مسلم امیدوار ہی کو، اس مختص یا ریزرو سیٹ سے لڑواتے ہوئے، کم از کم 8 فیصد مسلم امیدواروں کو اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پہنچنے کا موقع دیا جا سکے گا، اور اسی طرح سرکاری و نیم سرکاری نوکریوں پر بھی، اسی تناسب سے بھرتی کرتے ہوئے

دئش کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کو بھی ملکی ترقی پڑیری میں ساتھ لئےجایا جاسکے گا۔ اس سے مستقبل میں برہمنی لابی کو مسلم منافرت پھیلائے، ملک کو انارکی کی طرف ڈھکیلتے ہوئے، عالمی پس منظر میں، بھارت کو معشیتی ترقی پزیری کی راہ سے بھٹکایا نہ جاسکے گا۔ اور اسے بریمن دلت چھوت چھات نظریات والے برہمنوں کو اقتدار پر قابض ہونے سے مانع رکھنے میں بھی آسانی ہوسکتی ہے۔دلت آدیواسی ہچھڑی جاتی مسیحی بدھ مت کے ماننے والے بھی، آبادی کا جتنا بھی حصہ ہوں،

انہیں بھی ان کی نصف آبادی تناسب سے نوکریوں اور سیاست میں حصہ داری دی جائے گی۔ اس سے یقینا سپریم کورٹ فیصلہ مطابق کل ریزرویشن بھی 50فیصد سے آگے تجاوز نہیں ہو سکے گا۔ باقی بچی 50 فیصد سیٹوں پر بھی اپنی اپنی استطاعت سے جیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے اسمبلی و پارلیمنٹ 50 فیصد حلقوں میں ذات برادری آبادی تناسب سے حلقے مختص کر، انتخاب کروانے سے،کم از کم ان 50 فیصد سیٹوں پر، ان ذات برادریوں کی صحیح رہنمائی کرنے والے اچھے امیدوار ہی جیت کر آئیں گے۔ وماالتوفق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں