31

اس بار قربانی کی باری حکمرانوں کی ہے !

اس بار قربانی کی باری حکمرانوں کی ہے !

ملک میں استحکام لانے کیلئے ایک بار پھر مذاکرات پر زور دیا جارہا ہے ، ایک بار پھروزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں ، اپوزیشن قیادت سے سرعام ہاتھ بھی ملا چکے ہیں، اس کے باوجو کوئی عملی پیش قدمی نظر نہیں آ رہی ہے ، کیو نکہ اپوزیشن نے مذاکرات کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور اپنے مینڈیٹ کی واپسی سے مشروط کر دیا ہے ، اس پرحزب اقتدارکوئی پیش رفت کرنے کیلئے تیار ہے نہ ہی ایسی شرائط پر مذاکرات کی خواہاں ہے کہ جس کے تحت اقتدار سے ہی ہاتھ دھونا پڑے ، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ آج نہیں تو کل سیاسی پاٹیوں کو بالآخر بات چیت اور مفاہمت کے ہی دھارے پربہنا پڑے گااور مذاکرات کے ذریعے ہی آگے بڑھنا پڑے گا۔
اگر دیکھا جائے توسیاسی جماعتوں میں اختلافات کہاں نہیں ہوتے ہیں ، لیکن اس طرح کی مخاصمت جمہوری سیاست کے شایانِ شان نہیں ہے کہ جس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا گوارا ہے نہ ہی مکالمہ کرنا قبول ہے ،اس شدت کے سیاسی اختلافات کا سب سے زیادہ نقصان ملک و قوم کو ہورہا ہے،ایک طرف دہشت گردی قابو سے باہر ہورہی ہے تو دوسری جانب معاشی بدحالی بڑھتی ہی جارہی ہے ،

اس پر اتفاق رائے سے قابو پانے کے بجائے ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹہرایا جارہا ہے ، ایک دوسرے کو ہی نیچا دکھایا جارہا ہے ، ہر کوئی قومی مفاد کو تر جیح دینے کے بجائے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کا ہی خیال کررہا ہے ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ آئی ایم ایف بھی آنکھیں دکھا رہا ہے ، ڈومور کے مطالبے کررہا ہے، اس صورتحال میں ایسا نہیں لگ رہاہے کہ حکومت ان مطالبات کے مقابل عوامی مفادات کا کچھ تحفظ کر پائے گی۔
اس مشکل صورتحال سے بچانے کی ایک ہی تدبیر ہو سکتی ہے کہ ملکی آمدنی بڑھانے پر توجہ دی جائے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے، لیکن یہ سارے امکانات ایک ایسے ملک میں پیدا نہیں ہو سکتے ہیں کہ جہاں سیاسی انتشار اتنی شدید صورت اختیار کر چکا ہے کہ اس کی کمی کے اثرات ہی دکھائی ہی نہیں دیے رہے ہیں،

اس ملک میں بڑھتا سیاسی بحران ہی اس کی منزل سے دور کررہا ہے کہ جہاں ہم معاشی ترقی اور خوشحالی کی کوئی اُمید کر سکتے ہیںنہ ہی اس نا اُمیدی کو کسی اُمید میں بدل سکتے ہیں،کیو نکہ یہ حکومت کی تر جیحات میں شامل ہی نہیں ہے ، حکو مت کی تر جیحات میں اپنے سیاسی مخالفین کو دبانا اور امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کے خلاف کثرت رائے سے قرار داد منظور کرونا ہی رہ گیا ہے ۔
بلا شبہ امریکی ایوان نمائندگان کی پاکستان میں انسانی حقوق اور الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات کے بارے میں قرار داد کی منظور ی اندرونی معاملات میں مداخلت کے ہی مترادف ہے ،لیکن اس سے بھی نظریں نہیں چرائی جاسکتی ہیں کہ اس انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نہ صرف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، بلکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی لگا رہی ہیں،

ان حالات میں دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ آئینہ صاف کرنے کے بجائے چہرے کا داغ دھویا جائے، انتخابات پر عدالتی کمیشن بنایا جائے اور دوسروں کو انگلیاں اُٹھانے کا موقع ہی نہ دیا جائے، لیکن ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، کیو نکہ ایسا کر نے پر حکومت کے اپنے ہی پر چلنے لگتے ہیں ، اپنا ہی اقتدار جاتا دکھائی دینے لگتا ہے ،اتحادی کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا پول کھل جائے اور اقتدار بھی چلا جائے، اتحادی اقتدار میں رہنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا ئے جارہے ہیں ۔
اس بازی گریوں میں ملک کے حالات دیگر گوں ہوتے جارہے ہیں،ایک طرف مہنگائی کا طوفان بر پا ہے

تو دوسری جانب اضافی بلوں نے عوام کا جینا حرام کررکھا ہے ، ایسے میں خلق خدا کو چند بول تسلی کے ہی چاہئے ہوتے ہیں، کوئی رعایت، کوئی سبسڈی درکار ہوتی ہے ، تاکہ اُن کی زندگی میں بھی کو ئی آسانی آجائے، اگر اہل اقتدار چند ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کو ہی خوش کرتے رہیں گے تو اپنے عوام کی ہمدردیاں کھوتے چلے جائیں گے،اس وقت اتحادی حکومت کے پاس موقع ہے کہ اپنی بہترین صلاحیتیں مذاکراتی عمل کو آگے

بڑھانے میں جہاں استعمال کرے، وہیں اپنے اثاثے اپنی مقبولیت میں اضافے کیلئے بھی صرف کر دیے، اس حکومت کے پاس عوام کو راحت دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،کیو نکہ اب چوبیس کروڑ لوگوں کے پاس قربان دینے کیلئے کچھ بچا ہے نہ ہی کچھ قر بان کر نا چاہتے ہیں ، اس بار حکمرانوں کی باری ہے کہ خودہی قر بانی دیں ،ورنہ عوام ان کی قر بان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں