Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

سنگھی مودی جی کے رام راجیہ میں، کیا یہی کچھ ہم 140 کروڑ بھارت واسیوں کے ساتھ ہونے جارہا ہے؟

نقاش نائطی

سنگھی مودی جی کے رام راجیہ میں، کیا یہی کچھ ہم 140 کروڑ بھارت واسیوں کے ساتھ ہونے جارہا ہے؟

نقاش نائطی
+966562677707

جب عالم کے انیک ملکوں میں، خصوصا اس وقت کے ترقی یافتہ یورپی ممالک ،فارس و رومن ایمپائر میں شہنشاء و آنکے ہواریں،جہاں عیش و عشرت والی زندگی گزارتے تھے، وہیں ان کی رعایا، عوام کی اکثریت بندھوا مزدوروں کی طرح شہنشاء وقت کو ٹیکس ادا کئے، انکے عیش و عشرت کدے کے اخراجات اپنے کمزور و ناتواں کندھوں پر اٹھاتی تھیں۔ انہی ایام 1450 سال قبل خطہ ریگزآر عرب میں جب اسلام کا سورج بلند ہونا شروع ہوا۔ شہر مدینہ آباد ہوتے ہوئے، اسلامی خلافت کی ابتداء ہوئی۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، شب کی تاریکیوں میں بھیس بدل بدل کے شہر کی گلیوں کی خاک چھانتے ہوئے،

اپنی رعایا کے درد دکھ کو جانا اور ان کی تکلیفوں کا مداوا کرنے والا اسلامی خلافتی نظام دنیا والوں کو روشناس کرایا۔ جس اسلامی نظام میں،کسی بھی غریب کے گھر پیدا ہونے والے ہر بچے کو،زندہ رہنے، کھان پان الاؤنس ملنے لگا۔ اسکی تعلیم و تربیت نیز صحت عامہ کل اخراجات، حکومتی بیت المال کی ذمہ داری ٹہرائی گئی۔ جوان ہوا تو، اسے بے روزگاری ایلاؤنس ملنے لگا۔ اور یہ سب اخراجات اسلامی حکومت، رعایا پر حد سے زیادہ ٹیکس بوجھ ڈالے انہیں اپنی لوٹ کھسوٹ سے مہیا نہیں کرواتی تھی،

بالکہ خالق کائینات کی طرف سے ودیعت کردہ، اسلامی آداب و افکار و اقدار، رعایا کی سال بھر کی کل کمائی کا ڈھائی فیصد بطور زکاة بیت المال میں جمع کیا جاتا تھا اور اسی بیت المال فنڈ سے رفاع عامہ کل اخراجات نہ صرف پورے ہوتے تھے۔ بالکہ غریب و مفلس محنت کشوں کی سرمایہ کاری کئے، انہیں تاجر و صنعت کار بنایا جانے لگا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہی ڈھائی فیصد سالانہ زکاة فنڈ نے، اس وقت کے اسلامی معاشرے میں وہ معشیتی انقلاب برپا کردیا کہ، خلافت مدینہ قائم ہوئے کچھ سالوں بعد ہی، مدینہ میں زکاة لینے اہل، کوئی نہ بچا۔ہر سو خوش حالی دوڑنے لگی۔ اور یہ سب کچھ معشیتی خوشحالی، عرب ریگزار کے چھوٹے سے خطہ ارض، مدینہ منورہ میں ہی نہیں ہوئی تھی،

بلکہ خلیفہ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حیات ہی میں، اسلامی خلافت اپنی تمام تر معشیتی آسودگی کے ساتھ،عالم کے نصف حصہ ارض تک پھیل چکی تھی۔ اور اپنے پورے اسلامی اقدار و افکار،آب وتاب کے ساتھ 892 ھجری بمطابق 1482 عیسوی تاریخ سکوت غرناطہ وسکوت بغداد تک نہ صرف قائم تھی بلکہ اسلامی خلافت راشدہ بنو امیہ، بنو عباسیہ، بنو فاطمیہ کے، اس اختتام سے پہلے، ترکیہ سے جو عثمانی اسلامی سلطنت 709 ھجری بمطابق 1299 عیسوی قائم ہونا شروع ہوئی تھی

سکوت غرناطہ اسپین و سکوت بغداد بعد،سلطنت عثمانیہ باقاعدہ خلافت عثمانیہ میں تبدیل ہوتے ہوئے، 1922 تک پورے اسلامی اقدار و افکار کے ساتھ قائم تھی۔ گویا دس ھجرہ اسلامی سال بمطابق 632عیسوی سال، بعد وفات خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ،شروع ہوئی خلافت راشدہ سے، خلافت بو امیہ، خلافت بنو عباسیہ، خلافت بنو فاطمیہ ایرانیہ اور پھر خلافت عثمانیہ ترکیہ تک خلافت تبدیل ہوتے ہوتے 632 عیسوی سے 1922 عیسوی سال بمطابق 1340 ھجری تک، کم و بیش 1290 عیسوی سال یا 1330 ھجری سال، تقریباً تین چوتھائی عالم پر اسلام کے جیالوں نے صحیح معنوں عوامی حکومت چلائی تھی۔جہاں ہر سو عالم میں معشیتی آسودگی تھی۔

یہاں تذکرہ عوامی سطح رفاع عامہ تعلیم و صحت کے کل عوامی اخراجات ڈھائی فیصد عوام سے وصول کئے جانے والے زکاة فنڈ سے چلائے جاتے تھے۔ بنسبت اس دور غیر تعلیم یافتہ علم جدید، آج کے تعلیم یافتہ دور میں، جہاں جمہوریت کے نام نامی سے عوام پر عوامی حکومت چلائی جاتی ہے اور عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا،خود کو محافظ یا چوکیدار، فقیر منش کہلانے والا سربراہ، عوام پر لادے گئے بےجا انیک اقسام ٹیکس پیسوں سے، اپنے عیش و عشرت رکھ رکھاؤ اور خود کے تشہیری امور پر لاکھوں کروڑ صرف کرتا پایا جاتا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔

ذرا تقابل کریں آج کے عالم کی سب سے بڑی جمہوریت سربراہ کے اسکے اپنے تعیش پسندی اسکی انا پرستی تشہیری مہمات پر خرچ ہونے والے لاکھوں کروڑ صرفہ سے 1355 سال قبل والے تقریباً نصف عالم کے حکمران ،خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کسم و پرسی والی خانگی زندگی کا،عید سے پہلے عالم کے سب سے بڑے آور طاقت ور ترین حاکم اعلی، خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی،اپنےشوہر نامدار سے،عید پر بچوں کو نئے کپڑے سلوانے کی فرمائش کرتے ہوئے کہتی ہے، اب ہاتھ میں بچت نہیں ہے تو کیا ہوا

، اگلے ماہ کے حساب میں کچھ پیشگی تنخواہ ہی، بیت المال سے لے لیجئے، تاکہ عید پر بچے نئے کپڑے پہن، گلی محلے کے بچوں کے ساتھ مل جل کرخوشیاں مناسکیں۔ زوجہ محترمہ کی التجا پر،خلیفہ المسلمین انہی کے ماتحت کام کرنے والے، انہی کے نامزد کردہ،امیر بیت المال (وزیر خزانہ) کے پاس پہنچ،ان سے اگلے ماہ تنخواہ مد میں، کچھ رقم پیشگی طلب کرتے ہیں تاکہ عید پر بچوں کو نئے کپڑے پہنا سکیں۔ صدقے جاوان اس وقت کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر، کہ کس شان بے نیازی سے وہ جیا کرتے تھے

۔اپنےاوپر کے زمینی حاکم اعلی کی ذاتی عزت و تکریم تو کرتے ہی تھے لیکن اپنے اللہ کے حکم ،آمین بیت المال کا خیال بھی بخوبی رکھتے تھے۔ وقت کے خلیفہ کی درخواست رد بھی تونہیں کرسکتے تھے۔ اسلئے مودبانہ عرض کیا یا امیر المومنین پیشگی لی جانے والی تنخواہ رقم اختتام تک، آپ حیات سے بھی رہینگے یہ لکھ دے دیجئے اور پیشگی تنخواہ لے لیجئے۔ اور یوں نصف عالم کا حکمران، جس کے نام سے یہود و نصاری حکمرانوں پر کپکپی طاری ہوتی تھی۔ عید پر اپنے بچوں کو، نئے کپڑے انتظام کرنے سے ماورا، نامراد بیت المال سے واپس چلے آتے ہیں

۔ ذرا تقابل کیجئے اس وقت کے اسلامی خلفاء راشدہ کے اعلی کردار و اوصاف سے، فی زمانہ عوامی حکومت جمہوریت کے دعویدار خود کو فقیر منش چوکیدار کہنے والے ھندو رام راجیہ کے ویر سمراٹ مہان مودی جی کے دس سالہ کاریہ کال، انکی تعیش پسندی، انکے رکھ رکھاؤ انکی تشہیری مہمات پر اڑائے جانے والے 1400 ملین غریب و پس ماندہ بھارت واسیوں کے ٹیکس پیسے اصراف سے، جہاں سابقہ پینسٹھ سالہ کانگرئسی دور حکومت نے، لٹیرے انگریزوں کے ہاتھوں، لٹے لٹائے، غیر تمدنی ترقی یافتہ، بھوک و افلاس زد،چھوڑے بھارت کے انفراسٹرکچر تعمیر نؤکے لئے، 65 سال دوران کل 53 لاکھ کروڑ روپئے قرض جو کانگرئسی حکومتوں نے لئے تھے اس کے مقابلے،اس فقیر منش چوکیدار کی تعیش پسندی پر اڑائے جانے کے لئے،صرف 2022-2023 ایک سال دوران 1400 ملین دیش واسیوں سے

براہ راست جی ایس ٹی مد میں حاصل ہوئے20 لاکھ کروڑ کے علاوہ، ملکی و عالمی بنکوں سے لئے ہوئے، صرف دس سالہ سنگھی رام راجیہ میں جملہ 120 لاکھ کروڑ قرضہ جات لئے گئے ہیں۔ اور یہ رقوم پینسٹھ سالہ کانگرئسی راجیہ میں کھڑے کئے انفراسٹرکچر ایرپورست ریل و بندر گاہ نظام اپنے گجراتی برہمنی دوستوں کو بیج کھائے لاکھوں کروڑ سے پرے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ بعد آزادی آب تک دئیے گئے سرکاری نوکروں کی پنشن رقم ادا کرنے مودی سرکار کے پاس فنڈ نہیں بتائے جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں پڑوسی دشمن ملک پاکستان کی معشیتی بدحالی وضاحت کے لئے بنائی گئی مندرجہ بالا کلپ،کیا

عالم کی سب سے بڑی اور معشیتی طور مستحکم 10 ٹریلین معشیت، 1400ملین دیش واسیوں کو بھی، ایسا ہی کچھ مستقبل میں بھگتنا پڑے گا؟ اس کی فکر ہمیں کھائے جارہی ہے؟ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے بل پر، اچھے دن لانے والی رام راجیہ برہمنی سنگھی مودی سرکار نے تو، پینسٹھ سالا کانگرئسی سرکار کے واقعتاً خوشحال دنوں کے علاوہ، انگرئزوں کے زمانے کے خوشحالمگر غلامی والے دنوں سے بھی بدتر مہنگائی بے روزگاری والے دور میں پہنچادیا ہے۔ 2024

عام انتخاب اپنے ووٹوں سے سنگھی مودی حکومت کو رد کئے جانے کے باوجود، جس طرح سے سنگھی مودی جی، اپنے سنگھی گرگوں کے زور بازو قوت سے، حکومتی مشینری کو یرغمال بنائے، جس طرح سے اپنی سنگھی رام راجیہ کوعوام پرزبردستی لادے، وبال بنائے کھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، 2014 سے پہلے والے سست رفتار ہی صحیح بتدریج ترقی پزیر دور زمام من موہن سرکار کے دن واپس لانے کے لئے، کیا 1400 ملین بھارت واسیوں کو، سڑک جام ہڑتال کئے، سنگھ مکت بھارت ، کانگرئس راجیہ کا نرمان کیا کرنا پڑیگا، ومالتوفیق الا باللہ

جو حکومت عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے وہی عوام کی صحت عامہ تعلیمی اخراجات کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

Exit mobile version