مذہبی اعمال آزادی ہر کسی کے لئےانتہائی ضروری
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ہر کسی کو اپنی من مرضی مطابق کھانے پہننے اور عبادت کرنے کا اختیار ہونا چاہئیے ۔چاہے وہ اس دیش کے مسلمان ہوں یا دلت آدیواسی پچھڑی جاتی،یاکہ اونچی جاتی ٹھاکر و برہمن ھندو ہی کیوں نہ ہوں۔ عام بھارتیہ شہری یا مذہبی ٹھیکیدار ملا مولوی یا ھندو سنیاسی، یا مہینوں بغیر نہائے ادھ ننگے گھومنے والے کاوڑ سنیاسی، ہر کسی کو آپنی من مرضی کھانے پینے اور پہننے کا بالکیہ اختیار ہوتا چاہئیے۔ یہ ہر اس انسان پر ہے کہ وہ اپنے اپنے عقیدے ایمان مطابق مطابق اپنے اپنے بھگوان ایشور اللہ کے احکامات کے پیش نظر جو کھانا چاہے کھائے۔ ایک انسان دوسرے انسان پر اپنی ذاتی آراء یا اسکے مذہب ہی کی آراء کو،تھوپنے کا اختیار نہیں ہوتا چاہئیے۔ اور خصوصاً کسی بھی سیاسی پارٹی یا جماعت کو، کسی بھی شہری کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی بالکیہ اجازت نہیں دی جانی چاہئیے
سابقہ دس سالہ آرایس ایس، بی جے پی، سنگھی مودی یوگی رام راجیہ میں، گؤماس پریم کے بہانے سے کم و بیش 100 سے زاید عام سے مزدور پیشہ مسلمانوں کو، گؤ ماتا کو بیچنے،لاتے لیجاتے فرداً فرداً موب لنچنگ اموات نہایت بے دردانہ طور مارا اور موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے وہ بھی ان مذہبی جنونی سنگھی درندوں کے ہاتھوں، جو خود گؤماتا ڈھکوسلے پریم کے چلتے، خود گؤماتا کی تسکری کرتے،
انہیں کاٹ کھلانےکا غیر قانونی دھندہ منظم انداز چلا رہے ہیں۔سابقہ دس سالہ مہان مودی ہی کے رام راجیہ میں، اونچی جاتی ھندوؤں کے،بڑے بڑے بوچڑ خانوں میں، روزانہ کی بنیاد پر، ہزاروں کی تعداد میں گؤماتا کا ساموہک قتل عام کئے،ان گؤ ماتاؤں کے گؤماس کو، بیف ایکسپورٹ کے نام سے،کھاڑی کے مسلم عرب دیشوں میں ایکسپورٹ کرتے ہوئے،مہان مودی جی کا دس سالہ رام راجیہ، جہاں کئی سالوں سے عالم کا سب سے بڑا گؤماس بیف ایکسپورٹر بنا بیٹھا ہے۔وہیں پر مہان مودی کے سنگھی رام راجیہ میں، دئش کی عام جنتا کو، جہاں گؤماس کھانے سے ونچت یا ماورا رکھا گیا ہے،
اور اسی گؤ ماس کو، کھاڑی کے عرب دئشوں میں برآمد کرتے ہوئے، کروڑوں ڈالر کمائے جارہے ہیں۔ سب سے اہم اس صحت عامہ آگہی والے اس جدت پسند،پس منظر میں، گؤماس جو زیادہ چربی زد ہونے کی وجہ سے، لال رنگ کا ہوتا ہے، مرغی بکری والے وائیٹ میٹ کے مقابلہ، صحت انسانی کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، اس پس منظر میں گؤماتا کے ننھے بچھڑوں کا ماس چونکہ وائٹ میٹ کہلاتا ہے،اس کی عالمی مارکیٹ میں مانگ کے چلتے، سنگھی برہمنی بڑے بوچڑ خانوں میں، ان ننھے بچھڑوں کو، ہزاروں کی تعداد میں قتل کئے،
اس کا ماس بھی “ویل لیک” کے نام سے، ایکسیورٹ کیا کرتے ہیں۔ جدت پسند دنیا کی تحقیق مطابق میانی عمر والی نر گؤماتا یا پتا کو، زندہ رہتے،انہیں انتہائی گرم بخار یا بھاپ والے ماحول میں رکھے، ان پر ظلم و ستم ڈھائے، ان نر گؤماتا کے زندہ رہتے، ان میں موجود چربی کو پگھلائے، انہئں ادھ موا کئے،ہفتوں تک ان پر ظلم و جبر ڈھانے کے بعد، انہیں بڑی تعداد میں قتل کئے، ایک حد، انکے وائٹ میٹ کو “ویل لیگ میڈ” پیکنگ کے ساتھ ودیش بیچ دیا جاتا ہے۔ اس گؤماتا گوشت کا معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ چھوٹے بچھڑوں والا وائیٹ میٹ، چونکہ بکرے کے گوشت سے کافی سستا اور کم ہڈی والا ہوتا ہے،
اسلئے کھاڑی کے دیش والی ہوٹل صنعت میں، اپنے فائدے کے لئے، اس گؤماتا وائٹ میٹ کو، ھڈیوں والے مٹن کے ساتھ ملاتے ہوئے،اکثر ہوٹلوں میں پکا کر، مٹن کے نام سے گراہگوں کو،دھڑلے سے جہاں پروسہ جاتا ہے، وہیں ان کھاڑی کے دیشوں میں، مصروف معاش، لاکھوں اونچی جاتی ھندو بھائی بہن بھی، ہوٹلوں میں جاکر، مٹن کے نام پروسے جانے والا “ویل لیک بیف” جو کہ اصلا” “گؤ ماتا ماس” ہی ہوتا ہے، لاکھوں اونچی جاتی ھندو بھی مٹن سمجھتے ہوئے،دھڑلے سے، گؤماس کھانے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں
۔ ہزاروں لاکھوں ھندؤں کو مٹن کے نام سے ویل لیگ وائیٹ میٹ گؤماس کھلانے والے ذمہ دار کون ہیں؟ کھاڑی دیش میں ہوٹل صنعت چلانے والے زیادہ تر پاکستانی اور کچھ حد تک حیدر آبادی ہوٹل مالکان؟یا انہیں اپنے ذاتی فائیدے کے لئے، اپنے موب لنچنگ ڈر اور خوف بٹھا، 140 کروڑ دیش واسیوں کی اکثریت کے کھائے جانے والے گؤماس کو، انکے منھ سے چھین چھین کر، اپنے سرکاری لائسنس یافتہ بڑے بوچڑ خانوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گؤماتا کی ساموہک ھتیہ کئے، ان گؤ ماتاؤں کا گؤماس ،ودیش ایکسپورٹ کرنے والے،ار ایس ایس،بی جے پی، ہی سے جڑے، یہ سنگھی گؤ ماس ایکسپورٹر، کھاڑی عرب دیشوں میں کام کرنے والے ہزاروں ھندوؤں کا دھرم بھرشٹ کرنے والے بڑے ذمہ دار ہیں؟
ھندو اکثریتی ملک بھارت میں اکثریتی ھندوؤں کے، گؤماتا آستھا کا لحاظ رکھتے ہوئے گؤ ماس کھان پان کو ممنوع قرار دینا ہی ہے تو،صرف بھارت کی چند مسلم اکثریتی ریاستوں میں ممنوع قرار دئیے، باقی ریاستوں میں دھڑلے سے گؤماس بیچے جانے والا اور ہزاروں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر گؤماتا ہتھیہ کر، اسکا گؤماس ودیش بیچنے والی تجارت کو بھی ممنوع قرار دیا جانا چاہئیے۔ قانون سب کے لئے یکساں لاگو کیا جائے ہزاروں سالہ آسمانی ویدک دھرم والےچمنستان بھارت میں، اگر گؤماتا بھگتی پریم کے تحت اسکے، ذبیحہ پر پابندی لگتی ہے
تو، پورے دیش کی سرحدوں کے اندر، کسی بھی بہانے سے گؤ ماتا ذبیحہ اور اس کے گؤماس کی تجارت پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہئیے۔ آرایس ایس،بی جے پی،سنگھی مودی یوگی والے رام راجیہ کے دوہرے ماپ ڈنڈ، صرف دئش کی سب سے بڑی مسلم اکثریت کے لئے،ایک قانون اور گؤ ماتا رکھشا یا رکھوالی کرنے والوں کی سرپرستی ہی میں، گؤ ماس تجارت یہ کہاں کا انصاف ہے۔
دوسری طرف دیش کی سب سے بڑی مسلم اقلیت ہم 30 کروڑ مسلمانوں کو، کھلی عوامی جگہ پارک و راستوں پر اپنے مذہبی فریضہ وقت پر نماز ادائیگی سے ماورا رکھنے والا یہ یوگی مہاراج والا سنگھی قانون، ھندو مسلمان کے درمیان جو نفرت بڑھاتے ہوئے،آزاد بھارت کی پر امن فضاء کو مکدر کئے، ھندو مسلمان سب مل جل کر معشیتی طور بھارت کو ترقی پزیری کی راہ پر گامزن کرنے سے کیا مانع نہیں رکھتا ہے؟ اس لئے مہان بھارت کے ہم قانونی واسیوں کو انسانی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنے والے اپنے اپنے مذہبی فریضہ ادائیگی کی کھلی چھوٹ و اجازت ہونی چاہئیے۔ ومالتوفیق الا باللہ
من مرضی کھان پان کی آزادی ہونی چاہئیے۔