شفاف الیکشن کی طرف ہی جانا ہوگا !
مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی نے پہلی بار نہیں ،دوسری بار مل کر حکومت بنائی ہے اور مل کر ہی حکومت چلا رہے ہیں ، لیکن اتحادی ہوتے ہوئے بھی عوام کے سامنے مانے کیلئے تیار ہیں نہ ہی ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھارہے ہیں ، بلکہ عوام کو بہکانے کیلئے ایک نورا کشتی کھیلے جار ہے ہیں، ، پیپلز پارٹی حکو مت میں ہو تے ہوئے حکومت پر ہی تنقید کررہی ہے اور حکومت کوئی جواب نہیں دیے رہی ہے ،
کیو نکہ دونوں نے ہی آپس میں مک مکا کر رکھا ہے کہ آئی ایم ایف سے قر ض لینے سے لے کر آئی ایم ایف کے بجٹ منظور کرانے تک، اعتراض بھی اُٹھائیں گے اور مل بیٹھ کر منطور بھی کرائیں گے، لیکن عوام کو باور کرائیں گے کہ ہم مجبور ہیں اور مجبوری میں ہی سب کچھ کررہے ہیں ، عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں اور عوام کو ہی مشکلات سے دوچار کررہے ہیں ،جبکہ خود دونوں ہی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
اس آزمائے اتحاد کی تر جیحات میں کبھی عوام رہے ہیں نہ ہی اپنی تر جیحات میں عوام کو شامل کر نا چاہتے ہیں ، انہوں نے عوام کو ہمیشہ حصول اقتدار کیلئے استعمال کیا اور اقتدار ملنے کے بعد فراموش کیے رکھا ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، لیکن جب بھی ضرورت پڑتی ہے ، عوام کا ہی نام استعمال کیا جاتا ہے ، عوام کے ہی نام پر ایک دوسرے کو دبایا جاتا ہے ، ایک دوسرے سے اپنے مطالبات کو منوایا جاتا ہے ،
صدر زرداری بھی اپنے کچھ مطالبات منوانے کیلئے ہی ایوان صدر سے باہر نکلے ہیں اور انہوںنے نکلتے ہی حکومت پر تنقید کے تیر چلانے شروع کر دیئے ہیں ،صدر زرداری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ( ن) سے حکومت نہیں چل رہی ہے ، ، اس لیے خودہی مید ان میں آگیا ہوں ، ہم حکومت بنا سکتے ہیں تو گرا بھی سکتے ہیں ،
ہمیں حکومت بنانا اور گرانا خوب آتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ دونوں ہی سیاسی جماعتیں پہلے ایک دوسرے کی حکومت گراتی اور اپنی حکومت بناتی رہی ہیں اوراس بار دونوں نے مل کر تحریک انصاف حکومت گراکر اتحادی حکومت بنائی ہے ، یہ آزمائے حکومت بنانے اور گرانے کے تجربہ کارہی نہیں ، بلکہ مقتدرہ کے پسندیدہ سہولت کار بھی رہے ہیں ، اس لیے ہی عوام کی مخالفت کے باوجو اقتدار میںد لایا جاتا ہے اور ناکام آزمائے کو ہی بار بار آزمایا جاتا ہے ، یہ عوام کے حمایت یافتہ نہیں ، لیکن مقتدرہ کی مکمل حمایت رکھتے ہیں
اور اُن کے ہی اشارے پر چلتے ہیں ، صدر زرداری کو بھی کو ئی اشاراہ ہی ملا ہے کہ ایوان صدر سے نکل کر اپنی حکومت کو ہی دھمکانے لگے ہیں اور اپوزیشن کو بھی سنانے لگے ہیں ، صدر زرداری ایک تیر سے دو شکار کر نے میں کو شاں ہیں ، لیکن مسلم لیگ (ن)جہاں اُن کی سیاست سے بخوبی آگاہی رکھتی ہے ، وہیں اپوزیشن جماعتیں بھی جا نتی ہیں کہ اس وقت صدر زرداری کہاں سے بول رہے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ،صدر زرداری اپنی باری کیلئے اُڑان بھرنا چاہتے ہیں ، اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن اتحاد بننے جارہا ہے ۔
سیاست میں کل کے ھریف آج کے حلیف بننے جارہے ہیں ، بانی تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن قریب آرہے ہیں ، محود اچکزئی بھی دیگر اپوزیشن قیادت کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کاعند یہ دیے رہے ہیں ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ساتھ حکومت کی پشت پناہی کر نے والوں کے خلاف بھی ایک محاذ بننے جارہا ہے ، مو لانا فضل الرحمن کی تائید میں بانی پی ٹی آئی نے بھی کہہ دیا ہے
کہ ملک میں اتھادیوں کی نہیں، کسی اور کی ہی کی حکومت ہے ، میاں شہباز شریف بے ا ختیار وزیر اعظم ہیں،انہیںصرف فیتے کاٹنے کے لیے رکھا گیا ہے ، اگرپاکستان کو بچانا ہے تو شفاف الیکشن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، اس حکومت نے پاکستان کی امید ہی ختم کردی ہے، اس حکومت پر کسی کوبھروسہ ہے نہ ہی کو ئی اعتبار کررہا ہے ، ملک میں جمہوریت کی قبر کھودی جا رہی ہے،اگر طاقتور حلقوں نے ملک بچانا ہے تو شفاف الیکشن کی طرف جانا ہوگا۔اس ملک میںسیاست نہیں ،ریاست بچانے کے دعوئیدار بہت ہیں
، لیکن جب بھی ریاست بچانے کی بات آتی ہے توسب کو ا ہی پنی سیاست عزیز ہو جاتی ہے ، یہ اپنی سیاست کے عزیز ہو نے کا ہی نتجہ ہے کہ ریاست ڈوب رہی ہے اور سارے اپنی سیاست بچانے اور اقتدار حاصل کرنے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ،اس ملک کی کسی کو پرواہ ہے نہ ہی عوام کی مشکلات کا ااحساس ہے ، عوام پر یشان حال بے موت مر رہے ہیں اور حکمران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، لیکن ٰۃ سب کچھ اب زیادہ دیر تک چلنے والا ہے نہ ہی عوام ایسے چلنے دیں گے ، عوام آزمائے سے بے زار باہر نکلنے کیلئے تیار ہیں
،اگر اتحادیوں نے ایسے ہی عوام کو بہلانے کیلئے اپنی نورا کشتی جاری رکھی اور عوام کے درینہ مسائل کے تدارک میں کو تاہی برتے رہے تو پھرعنقریب عوام کا جم غفیر ہی حساب و احتساب کرے گا ،اس عوام کی عدالت سے کوئی بچا پائے گا نہ ہی کوئی چھڑا پائے گا، اس سے بچنے کا شفاف الیکشن کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔