نقاش نائطی 104

کب رکے کا یہ کارواں استحصال نساء

کب رکے کا یہ کارواں استحصال نساء

۔ ابن بھٹکلی
۔+966562677707

(کسی نامعلوم پاکستانی کی تحریر کو، افادئیت نساء کے پیش نظر، کچھ اضافوں کے ساتھ مشرق کی بیٹیوں کے سپرد کیا جارہا ہے)
کون کہتا ہے اس جدت پسند، ترقی پزیر جمہوریت میں بھی، نساء کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں؟

جسے اسلام نے مردوں کے مقابلے نصف عقل کہا، وہی نساء اپنی عزت آبرو مسلسل لٹنے لٹانے کے باوجود، مرد حضرات کی ہوس کا نشانہ بنی بنائی جاتے، جینے ہی میں مست و مسرور ہے۔اور اس ‘نامراد مود ہوس زد’ کے لئے، بچپن سے پال پوس اسکی تربیت کئے،اسے پڑھا لکھا تعلیم یافتہ کئے، اپنے خونی والدین تک کو، دھوکہ دئیے،ان بے وفا مرودوں کے سہارے اپنے گھروں سے بھاگی چلی جارہی ہے
ایک سروے کے مطابق 2018 سے لے کر 2022 تک صرف 25 کروڑ آبادی والے پاکستان میں،اپنے ہی مسلمان پاکستانی بھائیوں کے ساتھ کچھ اس تعداد عزتیں لٹوارہی ہیں تو سوچئے 140 آبادی والے وشال بھارت میں، دانستہ سازش کے تحت منافرت زد اس دس سالہ سنگھی مسلم دشمن پس منظر میں جہاں لؤ جہاد کے بہانے، مسلم نساء کو پھنساتے انکی زندگیاں تباہ و برباد کرنے والوں پر لاکھوں لٹائےانکی پذیرائی کی جائے، اس وشال بھارت میں کس قدر نساء کا وہ بھی مسلم نساء کا استحصال کیا جاتا ہوگا

یہ صرف 25 کروڑ آبادی والے مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں دولاکھ 23 ھزار لڑکیاں فیس بک سے محبت کر کے مردوں کی ھوس کا نشانہ بنیں
اور تین لاکھ سے زیادہ لڑکیوں نے اپنی ننگی تصاویر اور ویڈیو لڑکوں کو دیں
3 ھزار لڑکیاں ایسی ہیں جو محبت کے نام پر اپنی تصاویر ڈیلیٹ کرنے کی استدعا لڑکوں سے کی اور لڑکوں نے اللہ کی قسم, ماما کی قسم, ڈیلیٹ کردوں گا، کا ڈرامہ کر کے پورن ویڈیو بنائی اور بعد میں ان کو اس ویڈیو کے زریعے بلیک میل بھی کیا. بارہا اپنی ھوس پوری کی پیسے لیے اور اپنے دوستوں کی بھی ھوس پوری کروائی.
کتنی ہی لڑکیوں نے خودکشی کی.کتنی ہی لڑکیوں کی ویڈیو اب بھی مختلف ویب سائٹ پہ گردش کررھی ہیں.
کتنے ایسے کیس ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں اور ماں باپ اپنی عزت کے مارے اپنی بیٹیوں ہی کو مار دیتے ہیں

کہتے ہیں انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور دوسروں کی غلطیوں سے بھی سیکھتا ہے
مگر افسوس یہ ہے کہ اتنے کیسز رپورٹ ہونے کے باوجود بھی لڑکیوں کو ہوش نھیں آتا ہے
وہ مسلسل اپنی عزت نیلام کرنے پہ تلی ہوئی ہیں
صرف اک جملے کے آسرے پہ کہ “میرے والا ایسا نہیں” اور جب سب کچھ لٹا بیٹھتی ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ میرے والا بھی ایسا ہی گھٹیا یے.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر میرے والا یا تیرے والا اتنا ہی اچھا ھوتا تو ہمارا سب کا رب، نامحرم رشتے حلال قرار دیتا۔جب دیور, جیٹھ, سارے کزن, خالو, پھوپھا جیسے رشتے، جن کوہم آپ جانتے ھیں ان کو نامحرم قرار کیوں دیتا؟
تو اب بھی آپ سوشل میڈیا پہ گردش کرتے مردوں پہ کیسے بھروسہ کرسکتی ہیں؟
اس پر لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر فائدہ کوئی نہیں, کیوں کہ اب لڑکیوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا استعمال کرریی ہیں انہیں بھی حالات کی سنگینی کا اچھے سے علم ہے.اگر آپ کسی کو اچھا سمجھ کر دوستی یا محبت کررہی ییں تو یہ آپ کی زمہ داری ہے.
اور مرد کی نفسانی خواھش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کو چار شادیون تک کی بیک وقت اجازت ہے
مرد کے مقابلے میں عورت کی زمہ داری زیادہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچا کے رکھے
تو یاد رکھیں، چاہے سوشل میڈیا ہو یا ریئل لائف آپ تب ہی محفوظ ہیں جب تک کہ آپ کے لہجے میں کسی نامحرم کے لیے کوئی نرمی نہ ہو.
اپنے آپ پر احسان کریں اپنے آپ کو بچالیں . اللہ پاک ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت فرما آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں