84

سیاسی استحکام کیسے آئے گا !

سیاسی استحکام کیسے آئے گا !

ملک میں سیاسی عدم استحکام کم ہو نے کے بجائے مزید بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، حکومت سیاسی استحکام لانے کیلئے مذاکرات کی باتیں کرتی ہے ، مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت کرنے کے بجائے اُلٹا اپوزیشن کو ہی مزید دبائے جارہی ہے ، گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو عدت کیس سے باعزت بری کیے جانے کے بعد نیب کی جانب سے بنائے گئے کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے،

رانا ثنا اللہ اور فیصل واڈا نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو رہائی نہیں ملے گی اور وہی کچھ ہورہا ہے ، اس صورتحال میں اہل سیاست کے بیانات کو دیکھا جائے تو سیاسی درجہ حرارت میں کمی اور سیاسی استحکام آنے کی اُمید ہی دم توڑ جاتی ہے۔اگر دیکھا جائے توملک میں مایوسی اور نااُمیدی دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے،اُوپر سے اہل سیاست کا تصادم خوفزدہ کردینے والا ہے ،

یہ عوام کیلئے ہی تشویش کا باعث نہیں، بلکہ بیرونِ ملک پاکستان کے دوستوں اور خیرخواہوں کیلئے بھی بڑی فکر مندی کا باعث بنا ہوا ہے،، ہر کوئی سیاسی در جہ حرارت میں کمی لانے کی بات کررہا ہے، ہر کوئی سیاسی استحکام لانے کے مشورے دیے رہا ہے ،لیکن حکومت کی روش میں کوئی تبدیلی دکھائی ہی نہیں دیے رہی ہے ، ایک طرف حکومتی وزراء عدلیہ کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں

تو دوسری جانب اپوزیشن کو دبائے اور دیوار سے ہی لگائے جارہے ہیں ، اس کے بعد ملک سے بے یقینی کے خاتمے اور سیاسی استحکام آنے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ایک ایسا ملک جس کے پاس سیاسی و معاشی استحکام کے اچھے مواقع ہیں‘ صرف اس وجہ سے استحکام کی منزل سے روز بروز دور ہوتا جا رہا ہے کہ اس کیلئے سیاسی وریاستی فیصلہ ساز آمادہ ہی دکھائی نہیں دیے رہے ہیں، اس ملک کی ترقی و خوشحالی جو قربانیاں مانگتی ہے

،اس میں سیاسی اَنا کی قربانی بھی شامل ہے ،لیکن اربابِ اقتدار و ارباب اختیارسمجھتے ہیں کہ عوام کو دبانے اور ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے سے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ،جبکہ ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، ہم آج جس بحران میں گھرے ہوئے ہیں، اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ سجھائی دیتا ہے اور وہ پارلیمان سے ہی نکلتا ہے، لیکن یہاں پر فیصلے سڑکوں پر کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر معاملات کسی طرح سلجھ سکتے ہیں تو اس کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔
یہ روش ملکی امن و سلامتی کیلئے بے حد خطرناک ہے، ملک میں ایک طرف سیاسی الائوبھڑکانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا جارہا تو دوسری جانب قرض پر قرض کے معاہدے کیے جارہے ہیں اور ان معاہدوں کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے ، یہ حکومت کیلئے کا میابی ضرو ہو گی ،لیکن عوام کیلئے بڑی ناکامی ہے کہ حکومت کو اپنے مخالف فیصلوں سے روک پارہے ہیں نہ ہی خود پر بوجھ کم کروا پارہے ہیں

،آئی ایم ایف کا ایک اور بڑا قرض عوام کی ٹوٹی کمر کو مزید چکنا چور کر دیے گا ، لیکن حکومت ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے عوام سے ہی قر بانی مانگ رہی ہے اور خود اقتدار کے مزے لوٹے جارہی ہے ،حکمران قر بانی دینے کیلئے تیار ہیں نہ اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں ، لیکن اپنے اقتدارکو دوام دینے کیلئے عوام کو قرض کی دلدل میں دھکیلنے کیلئے ہردم تیار رہتے ہیں، جبکہ قر پر قرض بحران سے نکلنے کی ضمانت نہیں دیے سکتا ہے۔
پاکستان نصف صدی سے آئی ایم ایف کے ساتھ لین دین میں شریک کار ہے ،لیکن معاشی مسائل میں بتدریج اضافہ ہی ہورہا ہے، کیو نکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے ، ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا ، معاشی استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا،وزیر اعظم شہباز شریف سیاسی استحکام لانے کی باتیں بہت کرتے ہیں ، آئی ایم ایف کے قرض سے نجات حاصل کر نے کے دعوئے بھی کرتے رہتے ہیں

، لیکن اس جانب پیش رفت سے گریزاں ہی نظر آتے ہیں ،یہ حکمران اتحاد کیلئے احسن موقع ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑ ھایا جائے نہ کہ نئے مقدمات بنا کر پابندِ سلاسل رکھ کر اپنی تسکین تلاش کی جائے، قانونی معاملات کو قانونی انداز میں ہی چلنے دینا چاہیے ، اس میں دخل اندازی کرنی چاہیے نہ ہی رکاوٹ بنا چاہئے ،بلکہ الجھے معاملات سیاسی انداز میں سلجھانے کی کوشش کر نی چاہئے

،حکومتی اتحاد کب تک دوسروں کے سہارے اور اشارے پر ہی چلتا رہے گا اور کب تک دوسروں کے سارے فیصلوں کو بوجھ اُٹھاتا رہے گا ،اتحادی حکومت کو اپنے معاملات درست کر نے کیلئے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا،سیاسی استحکام کی پیش رفت کی جانب بڑھنا پڑے گا ، دوسرے کا کندھا اور سہارامحدود مدت تک ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں